کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے پارٹی کے سرکردہ راہنما سابق وفاقی وزیر اور پارٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے مطابق فاروق ستار کو تنظیمی نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات کے تحت انہیں پارٹی سے نکالا گیا ہے۔
ادھر فاروق ستار نے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس پر قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو بھیجے گئے اظہار وجوہ کے نوٹسز اور پھر یاددہانی نوٹسز پر بھی ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ نوٹس کی عدم تکمیل پر رابطہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ تنظیمی نظم و ضبط اور پارٹی آئین کی سنگین خلاف ورزیوں، تنظیم میں گروہ بندی اور دیگر سنگین تنظیمی خلاف ورزیوں پر ڈاکٹر فاروق ستار کو تنظیم کی بنیادی رکنیت سے خا رج کر دیا جائے۔
رابطہ کمیٹی نے پارٹی کے تمام کارکنان کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھا جائے۔
ادھر فاروق ستار نے خود کو پارٹی سے نکالنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی 3 دھائیوں سے زائد کی پارٹی سے رفاقت کے خاتمے کی اطلاع میڈیا کے ذریعے ملی۔ ان کے بقول ایم کیو ایم سے ان کی رفاقت کو پارٹی پر قابض جاگیرداروں نے انا کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق انہیں بنیادی رکنیت سے خارج کرنے کی کوئی ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
ایم کیو ایم کے سابق سربراہ نے رابطہ کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارٹی راہنماوں کو ماضی کی سیاست کو چھوڑ کر لوٹ مار اور کرپشن سے باز آنے کا مشورہ دیا تھا لیکن ان کے بقول پارٹی میں احتساب کی بات کرنے پر ان کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں جو بالآخر آج ان کی رکنیت کے خارج ہونے پر انجام پائیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پارٹی سے کرپٹ عناصر کو باہر نہ نکالا گیا تو پارٹی ختم سکتی ہے۔
فاروق ستار شروع سے ہی ایم کیو ایم کے سرکردہ راہنماؤں میں شمار ہوتے آئے ہیں۔ پارٹی کے بانی الطاف حسین کے قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے پارٹی کی علیحدگی کے اعلان کے بعد فاروق ستار ہی پارٹی کے نئے سربراہ بنائے گئے تھے۔
تاہم فاروق ستار کے پارٹی کے دیگر راہنماؤں کے ساتھ اختلافات موجود رہے جو 5 فروری 2018 کو کھل کر سامنے آئے جب پارٹی میں سینیٹ کے انتخابات کے لئے ٹکٹس تقسیم کرنے کے معاملے پر فاروق ستار ایک جانب جبکہ پارٹی کے دیگر سرکردہ راہنما دوسری جانب کھڑے نظر آئے۔ انہی اختلافات کے دوران فاروق ستار کو پارٹی سربراہی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ تاہم خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں سینیٹ انتخابات اور پھر عام انتخابات میں بھی پارٹی کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جبکہ فاروق ستار قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار بیٹھے تھے۔
اس کے بعد بھی فاروق ستار پارٹی کے دیگر راہنماؤں پر تنقید کرتے رہے۔ اور چند روز قبل ہی پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم میں انٹرا پارٹی انتخابات کا مطالبہ بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے فاروق ستار کو پارٹی سے فارغ کئے جانے کے بعد ان کا سیاسی سفر کسی اور پارٹی سے وابستہ ہو گا یا پھر وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیں گے۔ اس بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ فاروق ستار اس بات کا پہلے ہی اقرار کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت مل چکی ہے۔ لیکن فاروق ستار کی پاک سرزمین پارٹی سے رابطوں کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جن کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق فاروق ستار کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ابھی کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔