کراچی (جیوڈیسک) ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کو پانچ گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ ان کے وکیل آنند کمار کا کہنا ہے کہ انہیں ہفتے کو فاروق شاہ کی عدالت میں پیش ہونے کی شرط پر چھوڑا گیا ہے، جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کے بقول، خواجہ اظہار الحسن کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ497 ٹوبی کےتحت رہا کیا گیا ہے۔
اظہار الحسن نے رہائی کے بعد میڈیا سے انتہائی مختصر گفتگو میں کہا کہ وہ رات گئے پریس کانفرنس کریں گے۔
انہیں کراچی میں جمعہ کی دوپہر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ملیر راؤ انوار نے انہیں پاکستان مخالف تقریب سے گرفتار کیا، جنہیں گرفتاری کے فوری بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے معطل کر دیا۔
مقامی میڈیا اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری ’ڈرامائی انداز‘ میں کی گئی ہے، جبکہ راؤ انوار نے اپنی معطلی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے دیگر پولیس افسران کے حوصلے پست ہوں گے اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔
خواجہ اظہار الحسن کراچی کے علاقے بفر زون میں رہتے ہیں۔ ان کے پڑوسیوں نے بتایا کہ جمعہ کی دوپہر جس وقت خواجہ اظہار الحسن گھر پر موجود نہیں تھے چھ سے آٹھ اہلکاروں نے ان کے گھر پر یہ کہہ کر چھاپہ مارا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ کچھ جرائم پیشہ عناصر اس گھر میں چھپے ہوئے ہیں لہذا گھر کی تلاشی لی جائے گی۔
پڑوسیوں نے بتایا کہ ’’پولیس اہلکاروں نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ لیکن، کوئی مجرم وہاں موجود ہوتا تو ملتا ۔وہاں کوئی موجود ہی نہیں تھا۔ پولیس نے اس پر معذرت ظاہر کی اور کہا کہ چھاپہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔‘‘
یہ چھاپہ علاقہ ایس ایچ او کی نگرانی میں مارا گیا جس کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو فاروق ستار اور دیگر اہم رہنما خواجہ اظہار الحسن کے گھر پہنچ گئے جبکہ میڈیا نمائندوں کا بھی وہاں رش لگ گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسپیکر کی اجازت کے بغیر ممبر قومی اسمبلی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے کے الزام میں ایس ایچ او تھانہ سہراب گوٹھ کو معطل کردیا۔ پہلے چھاپے کے وقت خواجہ اظہار الحسن وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کر رہے تھے، جو بقول خواجہ اظہار، پہلے سے طے شدہ تھی۔
اسی دوران، راؤ انوار تقریباً 30 پولیس اہلکاروں کے ہمراہ خواجہ اظہار الحسن کی رہائش گاہ پہنچے اور خلاف توقع خواجہ اظہار کو آناً فاناً ہتھکڑی لگا کر بکتر بند میں بٹھایا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور اہل خانہ نے پولیس کو گرفتاری کے اقدام سے روکنے کی بہت کوشش کی جبکہ اس دوران راؤ انور اور فاروق ستار کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار کا کہنا تھا کہ خواجہ اظہارالحسن کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس افسر سے وارنٹ دکھانے کا کہا گیا تھا۔ لیکن راؤ انوار بغیر وارنٹ ہی انہیں گرفتار کرکے لے گئے۔
گرفتاری سے پہلے مارے گئے چھاپے کے بارے میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ پولیس کو مطلوب ملزم رئیس ماما اور اس کے ساتھی کی علاقے میں موجودگی پر چھاپا مارا گیا، پولیس اہلکاروں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ گھر خواجہ اظہار الحسن کا ہے۔
ڈپٹی کمشنر سینٹرل نے میڈیا کو بتایا کہ 6 سے 8 پولیس اہلکاروں نےخواجہ اظہار کے گھر کی تلاشی لی تھی۔
گرفتاری کے کچھ گھنٹوں بعد ہی وزیر اعلیٰ نےواقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کر دیا۔ اپنی معطلی کے فوری بعد راؤ انوار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں قانون کے مطابق کام نہ کرنے دیا گیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ خواجہ اظہار الحسن کو قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا ہے اور رہائی اب صرف عدالتی حکم پر ہی ممکن ہو سکے گی۔
رائو انوار کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں جلد بازی میں اور غلط طریقے سے معطل کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خواجہ اظہار کو ٹارگٹ کلرز کا چیف کہا جاتا ہے۔ وہ ضلع ملیر کے مختلف تھانوں کو مطلوب ہیں۔ان کے خلاف دو مقدمات 378/16 اور 374/16 سائٹ اور سپر ہائی وے تھانے میں درج ہیں جبکہ وہ انسداد دہشت گردی اور بغاوت پر اکسانے کی دفعات کےتحت بھی پولیس کومطلوب ہیں، اس لئے انہیں گرفتار کرنے کے لئے اسپیکر کی اجازت ضروری نہیں جبکہ حکومت کی ناراضگی سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔
ادھر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار الحسن کی اس وقت گرفتاری غلط اقدام ہے۔ واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ذمہ داروں سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ اگر راؤ انوار نے غلط کام کیا ہے تو انہیں سزا ملے گی۔
ادھر آئی جی سندھ نے وزیر اعلیٰ کے احکامات پر ڈی آئی جی ایسٹ کامران فضل کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا ہے۔ کامران فضل کی خدمات وفاق کے سپرد کردی گئی ہیں۔ ترجمان وزیر اعلیٰ ہاؤس کے مطابق، جس زون سے خواجہ اظہار گرفتار ہوئے وہ کامران فضل کا زون ہے۔
دوسری جانب خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے فون پر رابطہ کیا۔ وزیر اعظم کا مراد علی شاہ کو کہنا تھا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر رکن اسمبلی کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ پولیس افسر کو سزا دی جائے۔