تحریر : سید توقیر زیدی متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین سمیت لندن کی قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے فیصلے اب پاکستان میں ہی ہوں گے، ایم کیو ایم کو آپریٹ بھی پاکستان میں ہی کیا جائے گا، آئندہ متحدہ کے پلیٹ فارم سے کارکن یا قائد’ کسی کو بھی پاکستان مخالف بات کرنے اور پاکستان مخالف نعرے لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پیر کے روز جو صورتحال پیدا ہوئی وہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے دہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے جو موقف اختیار کیا، حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ایم کیو ایم کے قائد اپنی پارٹی کو ایک ایسی بند گلی میں لے آئے ہیں’ جہاں سے باہر نکلنا مشکل ہے۔ بہرحال پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے اگر تبدیلی لانے کی بات کی اور یہ کہا ہے کہ ا?ئندہ پارٹی کے فیصلے بیرون ملک نہیں بلکہ پاکستان کے اندر ہوں گے، تو ان کے اس دعوے یا وعدے کو آزما لینے میں کیا مضائقہ ہے؟
تاہم اگر یہ کوئی پینترا ہے یا کسی طرح کی چالاکی سے کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ان پر واضح رہے کہ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی کیونکہ الطاف حسین نے اس بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ بھارت کے پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور پیر کے روز کی گئی ساری ہنگامہ آرائی عالمی برادری کی توجہ کشمیر سے ہٹا کر پاکستان’ خاص طور پر کراچی پر فوکس کرانے کے لیے کی یا کرائی گئی۔ کوئی بھی محب وطن پاکستانی اس طرح کی صورت حال اور سرگرمیوں کو برداشت نہیں کر سکتا’ نہ ہی ایسی کسی تنظیم یا سیاسی جماعت کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے، جس کا لیڈر بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہو۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے کیے گئے وعدے دراصل ایم کیو ایم کی لیڈرشپ کا اپنا امتحان ہے، انہیں اپنی پالیسیوں اور عملی اقدامات کے ذریعے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ الطاف حسین کے نہیں بلکہ ریاست کے وفادار ہیں’ اور عوام کی بہبود اور بہتری کے خواہشمند۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جن لوگوں نے الطاف حسین کے اکسانے پر پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔
ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور ان سے کس طرح نمٹتی ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اگر اس بار انہیں معاف کر دیا گیا تو ان کے حوصلے بلند ہو جائیں گے اور ممکن ہے وہ کچھ اور گروہوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ اس صورت میں زیادہ بدمزگی پیدا ہو گی۔ علاوہ ازیں حکومت کو الطاف حسین کے بارے میں برطانوی حکومت سے بات بھی کرنا چاہیے اور یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ انگلینڈ کا کوئی شہری اگر پاکستان میں بیٹھ کر برطانیہ کے خلاف نعرے لگوائے اور برطانیہ مخالف ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کرے تو آیا یہ اس کے لیے قابل قبول ہو گا؟ برطانیہ اس کی اجازت دے گا؟۔
Altaf Hussain
الطاف حسین نے تقریر کے دوران محض پاکستان مخالف نعرے ہی نہیں لگوائے بلکہ دانستہ میڈیا ہائوسز پر حملے بھی کرائے۔ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ ایسی کوئی صورت حال برطانیہ میں پیدا ہو تو کیا برداشت کر لی جائے گی؟ پولیس اور رینجرز کی جانب سے کراچی میں ہنگامہ آرائی روکنے کے لیے کیے گئے فوری اقدامات سراہے جانے کے قابل ہیں۔ اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ اگر رینجرز اور پولیس بروقت اقدامات نہ کرتیں تو ہجوم کو اس قدر مشتعل کر دیا گیا تھا کہ وہ زیادہ نقصان کا باعث بنتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی میں خواتین کو آگے کیا گیا تھا تاکہ پولیس کی جانب سے ان پر لاٹھی چارج ہو اور ایم کیو ایم والوں کو اس معاملے کو ”ایشو” بنانے کا موقع مل جائے۔ دنیا کو یہ باور کرانے کا موقع ہاتھ آ جائے کہ پاکستان کے ادارے خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ الطاف حسین اپنے ان عزائم کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی اور اس ملک کا برا چاہنے والوں کی بہت بڑی ناکامی ہے اور آئندہ بھی یہ ملک دشمن عناصر انشاء اللہ اسی طرح دھول چاٹتے نظر آئیں گے۔ یہ واضح ہو گیا کہ اب صرف مائنس الطاف فارمولا ہی چل سکتا ہے۔ اگر اب بھی منافقت کا سہارا لیا گیا’ اور انہیں کچھ عرصہ بعد پھر پارٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک دشمن اقدام ہو گا اور ظاہر ہے کہ عوام اور ملک کے ہر ادارے کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں شر پسند عناصر کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں اور قائد ایم کیو ایم کے خلاف برطانوی حکومت سے باضابطہ طور پر کارروائی کرنے کے لئے سفارتی رابطوں پر غور کیا جائے جبکہ اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی، وقار اور قومی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔
کسی کو بیرون ملک بیٹھ کر کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ یہ فیصلے ہی دراصل حالات اور وقت کا تقاضا ہیں’ لیکن محض بیانات دینے سے کچھ نہ ہو گا، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس لیے عملی طور پر کچھ کرکے دکھانا پڑے گا۔ سیاست کے نام پر کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملک توڑنے کی باتیں کرے اور شہروں کا سکون برباد کرکے رکھ دے۔