کراچی (جیوڈیسک) سینیٹ الیکشن کے ٹکٹ کے معاملے پر شروع ہونے والا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کا تنظیمی بحران بدستور برقرار ہے اور پارٹی کے سربراہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کے تمام اجلاس اور فیصلوں کو ‘غیرآئینی’ قرار دیتے ہوئے کمیٹی ارکان کو شوکاز نوٹس بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
رات گئے پریس کانفرنس کے دوران اتوار (11 فروری) کو جنرل ورکرز اجلاس طلب کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ‘اب آئینی جنگ ہوگی’۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی آئین کے تحت امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اختیار کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ رابطہ کمیٹی کو حاصل ہے۔
دوسری جانب رابطہ کمیٹی نے سینیٹ کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اختیار ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کو دیتے ہوئے امیدواروں کی منظوری بھی دے دی تھی۔
گذشتہ رات پریس کانفرنس کے دوران فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وہ بہادر آباد مرکز جارہے تھے لیکن الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کا معاملہ سامنے آیا، لہذا رابطہ کمیٹی کے خط کے جواب میں انہوں نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر رابطہ کمیٹی ارکان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ سینیٹ کے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کر رہے ہیں، وہ 2018 کے الیکشن کی ذمہ داری بھی لیں۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ‘آج صبح الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر رابطہ کمیٹی کا بھیجا گیا خط مسترد کرنے کا کہوں گا، یہ خط مجھ پر عدم اعتماد ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے اختیارات پر شب خون مارا گیا اور پیٹھ پر وار کیا گیا لہذا کارکنان باہر نکلیں اور پارٹی بچائیں’۔
اتوار (11 فروری) کو کے ایم سی گراؤنڈ میں جنرل ورکرز اجلاس طلب کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ اپنی سربراہی سے متعلق فیصلہ بھی اسی اجلاس میں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ سب اس لیے ہے کہ میرے پاس وہ ڈنڈا نہیں جو بانی ایم کیو ایم کے پاس تھا’۔
اس موقع پر فاروق ستار نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) میں جانے والے منتخب نمائندوں اور کارکنان کو بھی واپس آنے پر خوش آمدید کہا۔
فاروق ستار کی رات گئے ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد رابطہ کمیٹی نے صبح پونے 6 بجے پریس کانفرنس کی۔
اس موقع پر فیصل سبزواری نے کہا کہ عامر خان نے رابطہ کمیٹی کا اجلاس آج دوپہر 2 بجے طلب کرلیا ہے جبکہ فاروق ستار کو بھی شرکت کی دعوت ہے، لیکن اگر وہ نہ بھی آئے تو اجلاس ہوگا۔
فیصل سبزواری کا مزید کہنا تھا کہ فاروق ستار کی جانب سے اظہار وجوہ کا نوٹس ملا تو دیکھیں گے کہ جواب دینا ہے یا کیا کرنا ہے۔
واضح رہے کہ کامران ٹیسوری کی پارٹی رکنیت سے 6 ماہ کی معطلی اور رابطہ کمیٹی سے خارج کرنے کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
گذشتہ دنوں رابطہ کمیٹی نے کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر کے عہدے سے فارغ کرتے ہوئے انہیں 6 ماہ کے لیے معطل کردیا تاہم اس فیصلے کی پارٹی کنوینر فاروق ستار نے مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا تھا۔
رابطہ کمیٹی کے رکن خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کامران ٹیسوری کو معطل کرنے اور رابطہ کمیٹی سے خارج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاروق ستار ہر حال میں کامران ٹیسوری کو سینیٹ کی رکینیت کا امیدوار بنانا چاہتے تھے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ’فاروق ستار کی خواہش تھی کہ ہم دو ساتھیوں کی قربانیاں دے کر ہر حالت میں کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا امیدوار بنائیں، یہ اختیار کسی کو نہیں، رابطہ کمیٹی سب سے اوپر ہے، انفرادی طور پر فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔‘
تاہم فاروق ستار کامران ٹیسوری کو سینیٹ الیکشن کا ٹکٹ دینے کے اپنے فیصلے پر تاحال قائم ہیں اور انہوں نے الیکشن کمیشن کو کامران ٹیسوری کا نام بھی جمع کرا دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کامران ٹیسوری کو سینیٹ الیکشن کا ٹکٹ دینے کی مخالف ہے۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان دو دھڑوں میں تقسیم ہے، ایک دھڑا پی آئی بی کالونی جبکہ دوسرا بہادرآباد سے چلایا جارہا ہے۔
پی آئی بی دھڑے کی سربراہی فاروق ستار کر رہے ہیں جبکہ بہادر آباد دھڑے میں عامر خان، فیصل سبزواری، نسرین جلیل، فروغ نسیم، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، شبیر قائم خانی اور امین الحق شامل ہیں۔