کراچی (جیوڈیسک) انھوں نے کہا کہ اگر دفاتر غیرقانونی تجاوزات میں آتے ہیں تو میئرکی حلف برادری کے بعد میئر کی اجازت سے انھیں قانونی طریقہ سے مسمار کیا جانا چاہیے تھا۔
ایم کیو ایم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ایم کیوایم کو جدوجہد جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا جائے اور تنظیمی دفاتر اور منتخب نمائندوں کے رابطہ دفاتر کو مسمار کرنے کی بجائے ایم کیو ایم کو دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ شعبہ خواتین کی جوائنٹ انچارج رابعہ ماجد اور ان کی بیٹی، نومنتخب کونسلر قرۃ العین اور برنس روڈ ٹاؤن کی کارکن سمیرا نبیل کوگرفتار کیا گیا ہے۔
ایک بیان میں ایم کیو ایم پاکستان نے کہاکہ ایم کیو ایم پاکستان جمہوریت و امن پسند جماعت ہے جو آئین و قانون کی مکمل پاسداری پر یقین رکھتی ہے خواتین سمیت دیگر کارکنان کو بلاجواز اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر اور جھوٹے مقدمات قائم کر کے ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش بند کی جائے۔
واضح رہے کہ شہر میں گذشتہ تین سالوں سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران پہلی بار خواتین کی گرفتاریاں کی گئی ہیں اور یہ گرفتاریاں نجی نیوز چینل کے دفتر پر حملے کے بعد عمل میں لائی گئی ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے کراچی اور حیدر آباد میں تنظیمی دفاتر مسمار کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے شہر کا امن سبوتاژ کر کے خوف وہراس پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
حکومت سندھ نے غیرقانونی تجاویزات کے خلاف جاری آپریشن کے دوران یہ دفاتر مسمار کیے ہیں جبکہ کئی مقامات سے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی تصاویر بھی ہٹائی گئی ہیں۔
ان میں عزیز آباد میں واقعہ مکہ چوک بھی شامل ہے جو پانچ اطراف سے الطاف حسین کی تصاویر سے سجا تھا۔
ایم کیوایم پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے تنظیمی دفاتر اور حق پرست نمائندوں کے رابطہ دفاترگذشتہ کئی دہائیوں سے قائم ہیں اور سندھ حکومت کو 30 سال بعدآج یہ دفاتر غیرقانونی نظر آ رہے ہیں۔