ایم کیو ایم پاکستان بمقابلہ ایم کیو ایم لندن

Farooq Sattar

Farooq Sattar

تحریر : صباء نعیم
22 اگست کی متنازعہ اور اشتعال انگیز تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار لندن سے فاصلے پیدا کرنے یا کم از کم اس کا تاثر پختہ کرنے کیلئے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا لندن سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس کے سربراہ ہیں۔ اب انہوں نے اس سلسلے میں اپنی تیسری پریس کانفرنس میں کہا کہ رابطہ کمیٹی کے کنوینئر کے فیصلوں کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں ہو گی، جب تک وہ پاکستان میں نہیں ہوں گے اور اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

اس فیصلے کے ذریعے ندیم نصرت کے بطور کنوینئر رابطہ کمیٹی کردار کو غیر موثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں ندیم نصرت پاکستان آنے کا رسک نہیں لیں گے۔ اس لئے ان کے کردار کو ”پاکستان میں موجود ہونے” کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ اب نہ وہ آئیں گے اور نہ ان کا کوئی کردار ہوگا تاہم وہ الطاف حسین کے بدستور معتمد رہیں گے مصطفی عزیز آبادی اور واسع جلیل نے پہلے کی طرح فاروق ستار کے تازہ فیصلے کو بھی مسترد کردیا ہے جس طرح انہوں نے فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس کے بعد فوری طور پر یہ اعلان کردیا تھا کہ الطاف حسین پہلے کی طرح قائد ہیں اور ان کی توثیق کے بغیر کوئی بھی فیصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ صرف ان فیصلوں کو مانیں گے جنہیں الطاف حسین کی تائید حاصل ہوگی۔ تاہم ڈاکٹر فاروق ستار اس کے بعد مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ ان کے اور الطاف حسین کے راستے الگ ہوگئے ہیں اور اب ایم کیو ایم پاکستان اپنا الگ آزادانہ وجود رکھتی ہے جسے لندن سے کسی تائید و توثیق کی ضرورت نہیں۔

روایت کے مطابق الطاف حسین کو قائد اور بھائی کہا جاتا ہے لیکن فاروق ستار نے انہیں اپنی دوسری پریس کانفرنس میں ”الطاف صاحب” کہہ کر پکارا۔ قائد اور بھائی کے ساتھ انہیں ایم کیو ایم کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

Altaf Hussain

Altaf Hussain

محسوس ایسے ہوتا ہے کہ فاروق ستار اپنی آزاد روی کا تاثر پختہ کرنے کیلئے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے سارے پتے ایک ہی وقت میں شو نہیں کردیئے تھے وہ آہستہ اہستہ سیاسی کھیل میں آگے بڑھ رہے ہیں اور الطاف حسین سے علیحدگی کا تاثر دے کر اپنے بعض مطالبے بھی سامنے لا رہے ہیں۔ انہوں نے ان تین خواتین کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا جنہیں رینجرز نے 22 اگست کی ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جن خواتین کو گرفتار کیا گیا ان کا میڈیا آفس میں ہنگامے اور توڑ پھوڑ سے کوئی تعلق نہیں اور ویڈیو میں جو خواتین نظر آ رہی ہیں وہ کوئی اور ہیں۔ اب فرض کریں کہ اگر ویڈیو میں نظر آنے والی خواتین وہ نہیں ہیں جو گرفتار ہوئی ہیں تو پھر رینجرز کو ان خواتین کو تلاش کرنا ہوگا۔ اگر توڑ پھوڑ کرنے والی اصل خواتین گرفتار ہو جاتی ہیں تو پھر ان خواتین کی رہائی ممکن ہے۔ اگر گرفتار خواتین قصور وار نہیں ہیں تو پھر وہ عدالتوں میں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کریں اور یہ ثبوت مہیا کریں کہ ویڈیو میں جو خواتین توڑ پھوڑ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ کوئی دوسری خواتین ہیں۔ رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ ہنگامہ آرائی میں ملوث تمام لوگوں کی نشاندہی ہوچکی ہے جن میں سے بعض گرفتار ہوچکے ہیں اور باقیوں کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان سہولت کاروں کو بھی گرفتارکیا جائے گا جنہوں نے ہنگامہ کرنے والوں کو ایک بینک میں کھانا بھی کھلایا۔ فاروق ستار کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر جدوجہد اور الطاف حسین سے علیحدہ ہو جانے کا تاثر دینے کا بنیادی مقصد بھی اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی ہے۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ گرفتار شدگان کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن شاید انہیں اس میں زیادہ کامیابی نہ ہو کیونکہ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں جن کارکنوں کا ملوث ہونا بوجوہ ثابت شدہ ہے ان کی اس طرح رہائی شاید ممکن نہیں ہوگی فاروق ستار کے ساتھ ساتھ مصطفی کمال بھی متحرک ہیں اور وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ فاروق ستار لندن سے ”رہائی” کا ڈرامہ کر رہے ہیں اور یہ سب نورا کشتی ہے اب بھی وہی کچھ ہو رہاہے جس کی اجازت الطاف حسین دیتے ہیں اور اس سب کچھ کا مقصد دباؤ سے نکلنا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالات جیسے بھی ہوں اڑتیس سال سے ہمارے پرچم پر لگی پتنگ کو ہی ووٹ پڑتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں حق پرست نمائندوں نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور جس ضلع کی چیئرمین شپ چھیننے کی کوشش کی گئی اسے الیکشن کمیشن نے ناکام بنا دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تین ماہ میں کراچی کو ایشیا کا صاف شہر بنا دیں گے اور جاپان کی مدد سے سرکلر ریلوے بھی چلائیں گے۔

MQM

MQM

ایم کیو ایم کے چند ارکان نے الطاف حسین کے خلاف قومی اسمبلی میں جو قرارداد منظور کرانے کی کوشش کر رکھی ہے لندن کی رابطہ کمیٹی نے اس قرارداد کو ناکام بنانے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں اور اس مقصد کیلئے لندن کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کافی متحرک ہیں۔ تاہم اگر یہ قرارداد ایوان میں پیش ہو جاتی ہے تو اسے دوسری جماعتوں کی تائید سے ہی منظور ہونا ہے جنہیں ایوان میں اکثریت حاصل ہے۔

ایم کیو ایم کے بعض ارکان کی مخالفت کے باوجود یہ قرارداد منظور ہوسکتی ہے تاہم ایسی صورت میں یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ کون سے ارکان ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ہیں اور کون سے ابھی تک لندن کے اثرات سے نہیں نکل پائے۔ کراچی کی رابطہ کمیٹی میں مزید چار ارکان بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ فاروق ستار رابطہ کمیٹی کو زیادہ سے زیادہ نمائندہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور آزادانہ فیصلے کر رہے ہیں۔

Saba Naeem

Saba Naeem

تحریر : صباء نعیم