چلیں ایم کیو ایم پاکستان و پی ایس پی والے تو ایک ہو گئے

MQM and PSP

MQM and PSP

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
سرہیر لڈولسن کا کہنا ہے کہ ” سیاست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے“اِس کا کہنا بجا ، مگر میرے مُلک پاکستان میں توہفتہ دور کی بات ہے ہما رے یہاں تو سیاست میں روزا نہ ہی کچھ نہ کچھ نیا اور اہم ہونامعمول بن گیاہے۔اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ گزشتہ بدھ 8نومبر 2018کو کراچی کی تنا و ¿ پر پہنچی سیاست کے حوالے سے جو کچھ بھی ہوا اگرچہ ، بہت اچھا ہوا اور اِس کا اندازہ بھی ضرور تھا کہ آج نہیں تو کل یا پھر کبھی نہ کبھی تو ایسا ہوگا ہی” بھلا لاٹھی مارنے سے بھی کبھی پا نی علیحدہ ہوا ہے“ اور اِس کا ثبوت بھی پچھلے دِنوں سب کو ملا گیا مگر یہ سب کچھ اتنی جلدی ہو جا ئے گا کم از کم اِس کا گمان نہیں تھا اِس سے اِنکار نہیں کہ جو ہوا یہ نہ صرف اہلیانِ کراچی کی دلی خوا ہش تھی بلکہ مُلک کے طول ُ ارض پر پھیلے ہو ئے ہر محب وطن پاکستانی کی بھی یہ آرزو تھی کہ شہر کراچی جو مُلکی معیشت میںریڑہ کی ہڈی اور حب کی حیثیت رکھتا ہے اِس شہرقا ئد کو دائمی امن اور سکون وسلامتی کا گہوارہ تب ہی بنایا جاسکتا ہے کہ جب اِس شہر کو سیاسی بنیا دوں پر بنا ئے گئے نوگوایریاز سے نجات دلاکراِس سے ہر قسم کی نفرت اور تعصبات کا خاتمہ کیا جا ئے اور ریاست کے اندر سیاست والی پرتشدت اور عدم برداشت کی سیاست اور سیا سی عمل سے اجتنا ب برتا جا ئے اور الحمد ُ للہ ، سب کی دُ عا ئیں قبول ہو ئیں اوراَب کراچی سے وابستہ ہر پاکستانی کے ا چھے دن پھر سے آنے کو ہیں اور کراچی کی رونقیں پھر سے بحال ہونے کو ہیں۔

دنیا کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ آ ٹھ نو مبر کی شا م کراچی پریس میں ایک دوسرے کے سیاسی مخالف کیسے ایک ہو ئے اور کیسے کیسے ایک ہو نے اور با ہم متحد اور منظم ہوکر دونوں نے ایک ساتھ چلنے کے وعدے اور عہد پیما ں بھی کئے گئے کہ اِنہیں یو ں دیکھ کر ہر محب وطن کے دل سے اِن کے سچے اور پکے اور دائمی طور پر ایک ہونے کے لئے دُعا ئیں بھی نکلیں اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ اب بھی دونوں جا نب سے کچھ لوگ ناراض ہیں مگر اِن کی ناراضگی بہت جلد ختم بھی ہو جا ئے گی جب اِنہیںاپنے سربراہان کے فیصلوں سے متعلق مکمل آگا ہی ہو گی اور سب کچھ دودھ اور پا نی کی طرح عیاں ہو جا ئے گا کیو نکہ آج دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ہیں اِس کے بغیر اِن کی حیثیت اگلے الیکشن میں پا نی کے بلبلے جتنی بھی نہیں رہتی اور ویسے بھی خا ص طور پر ایم کیو ایم پاکستان اور لندن والوں کے لئے یہ بہت زیادہ ہی خوشی قسمتی کی علامت ہے کہ پی ایس پی کی واشنگ مشین اِن کے کہنے پر ایک اشارے پر خود چل کر اِن کی پا س آئی ہے یوں ایم کیو ایم پاکستان اور لند ن والے فضول کی ناراضگی اور نا ز نخرے کی ڈرا مہ بازیاں بند کریں اور دیر نہ کریں بلکہ جلدی جلدی پی ایس پی کی واشنگ مشین میںداخل ہو کر خود کو اپنے پچھلے گنا ہوں اور گندگی و غلاظت سے پاک کریںاور نئے انداز سے کراچی اور سندھ سمیت مُلکی سیاست میں اپنا اپنا مثبت رول ادا کریں ہاں اِس موقع پر راقم الحرف پی ایس پی کے چیئر مین مصطفی کمال اور سلسلہ کمالیہ کے پیروکاروں کو یہ مشورہ بھی دینا چا ہئے گا کہ آپ چا ہیں تو اپنا انتخا بی نشان ” چرخی “ رکھ لیںچو نکہ تا ریخ گوا ہ ہے کہ پتنگ اور چرخی لا زم و ملزم ہیںاور ثابت ہو گیاہے کہ پتنگ جہاں ہو گی چرخی بھی وہیںہوگی اور جہاں چرخی ہو گی پتنگ بھی وہیں ہوگی ۔

اگرچہ ،یہ حقیقت ہے کہ سلسلہ کما لیہ اور ستا ریہ والوں کا یوں ایک ہونے سے متعلق ایک روز قبل تک نہ تو کسی کو کچھ پتہ تھا اور نہ ہی ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کچھ علم تھا کہ اگلے 24گھنٹوں کے دوران متحدہ قومی موومنٹ پاکستان( ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار/سلسلہ ستاریہ ) اور پاک سرزمین پا رٹی (پی ایس پی کے چیئر مین مصطفی کمال/سلسلہ کما لیہ ) والے یوں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں با ہم متحد و منظم ہو کر ایک ہو نے اور مُلک میں ہو نے والے اگلے 2018ءکے انتخا بات میں ایک نام ،نشان اور منشورپر الیکشن لڑنے کا اعلان کریں گے ، دونوں کراچی کے ووٹرز کو تقسیم سے بچا نے کے لئے اِس طرح Uٹرن لیں گے اور مُلکی مگر سندھ اور خا ص طور پر کراچی کی سیاست میں اچا نک ہلچل پیدا کردیںگے اگرچہ ، اِس صورتِ حال میں یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ قو می موومنٹ لندن کے بطن سے پیدا ہونے والے پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہان سلسلہ کمالیہ اور سلسلہ ستاریہ والے تو اپنے سیاسی تحفظات اور خدشات کے باعث ایک ہو گئے ہیں مگر ابھی کراچی کی ترقی اور خوشحالی اور امن و سلامتی اور ووٹرز کے بنیادی حقوق کے حصول اور دیگر مسائل کے حل کے حوالوں سے سقم اُس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ سلسلہ کما لیہ اور ستاریہ والے کہیں نہ کہیں سے اپنے ساتھ سلسلہ آفاقیہ (مہاجر قومی موومنٹ پاکستان حقیقی کے چیئر مین آفاق احمد اور سلسلہ الطا فیہ (متحدہ قو می موومنٹ لندن کے الطاف حُسین کے )پیروکاروں کے بھی تحفظات اور خدشات کو دور کرکے اپنے ساتھ ملا کر نہیں چلیں گے یقین جا ن لیجئے کہ سلسلہ کما لیہ اور سلسلہ ستاریہ والے عنقریب نئے جنم لینے والے سلسلہ سلیمہ (سلیم شہزاکے گروپ )کو بھی نظرانداز کرکے کراچی کی خدمت نہیںکرسکیں گے۔

بہر حال ،اِن دِنوں مُلکی سیاست میں تہلکہ خیزی کا ہونا معمول بن گیا ہے ہمارے میدانِ سیاست میں روزا نہ کہیں نہ کہیں سے انہونی ہورہی ہے یہ سیاسی تہلکہ خیزی اور انہونیت کا ہی سلسلہ ہے کہ آج ایک طرف ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی والے تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک ہو گئے ہیں تو وہیں شرافیہ کا طاقتورطبقہ جِسے ہمیشہ یہ گمان رہا کہ اشرافیہ کا یہ طبقہ جو چا ہئے کرلے یہ ہمیشہ کی طرح قا نون کی گرفت سے آزاد رہے گا مگرآج جیسا مُلکی سیاست اور خا ص طور پر اشرافیہ کے خلاف نرم و سخت احتساب کا عمل شروع ہوا ہے جہاں اِسے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے تو وہیں اِسے قا نون اور انصاف کی بڑی کا میا بی کی اچھی اور حوصلہ افزاءابتدا کے ساتھ یہ اُمید بھی پیدا ہو چلی ہے کہ یہ عمل یقینا مُلکی تاریخ میں سُنہرے ابواب کا اضافہ کرے گا کہ اِن دِنوں جس انداز سے قا نون اور انصاف نے اشرافیہ کو قا نون کی گرفت میں لا کر اپنا کردار اداکرنا شروع کیا آنے والے دِنوں ، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں اِس کے بہتر نتا ئج ضرور سا منے آئیں گے اور یہی وجہ ہے کہ آف شور کمپنیوں اور اقا مہ کے دانستہ کرتوتوں پر نا اہلی کی سزا برسراقتدار جماعت ن لیگ کے سربراہ نوازشریف اینڈ فیملی توبھگت ہی رہی ہے۔

جب تک یہ اداروں سے محا ذ آرا ئی کرتی رہے گی اورا پنا قصور تسلیم نہیں کرلیتی اِسے مقدمات کا سا منا کرتے ہی رہنا پڑے گاسو وقت اور حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ با لخصوص نوازشریف اینڈ فیملی اور با لعموم اَب مسلم ن لیگ کے وزراءاور کارکنان عدلیہ ، افواج پاک، اداروں اور اسٹیپلشمنٹ سے متعلق اپنی نازیبان گزبھر کی چمڑے کی زبان جو قومی اداروں کو صریحاََ بدنام کرنے کے لئے قینچی کی طرح چل رہی ہے اِسے قا بو میں رکھیں تو بہتر ہے خا ص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر وسا بق وزیراعظم نوازشریف ایسا ” مجھے کیو ں نکالا؟؟ (جبکہ اِنہیں جیسا نکالا گیا ہے وہ ٹھیک ہے مگر یہ ما ننے کو تیار ہی نہیں ہیں) معلوم تھا نظر ثا نی درخواست پر فیصلہ میرے خلاف آئے گا،جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں غصہ الفاظ میں سامنے آگیا،اِن کا سارا بغض، غصہ اور الفاظ تار یخ کا سیا ہ باب بنیں گے، پچھلے ستربرس سے میں عدلیہ کی جا نب کئی سیاہ اوراق لکھے گئے“ کچھ نہ کہیں جس سے اِن کے عدلیہ اور اداروں سے محاذ آرا ئی کی بو محسوس کی جا ئے،تا ہم اگر واقعی حکمران اور سیاستدان مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے خواہشمند ہیں تو اِنہیں ہر صورت میں آپس اور اداروں سے لڑا ئیوں سے اجتناب برتنا ہوگا ورنہ؟؟کچھ ہا تھ نہ آئےگا۔ ختم شُد

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم