تحریر : چودھری عبدالقیوم ملک کی تمام تر سیاسی پارٹیاں آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ایسے میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار متنازعہ ایم کیو ایم پاکستان بھی اپنی سیاسی بقا کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے ۔اس کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے گزشتہ دنوں اسی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کیساتھ پریس کانفرنس کرکے ایک منشور ، ایک نشان اور جھنڈے کیساتھ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھالیکن اگلے ہی روز اس فیصلے کیخلاف ساتھیوں کے احتجاج پر سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرڈالا لیکن ایک گھنٹہ بعد ہی یہ فیصلہ واپس بھی لے لیا دوبارہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنے اعلان کردیا۔اس طرح کی سیاسی قلابازیاں اور ڈرامے ایم کیو ایم کا پرانا وطیرہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ یہ ڈرامے اب کب تک چلتے ہیں۔ ایم کیوایم جو ایک سیاسی حقیقت ہے یہ اپنے قیام سے لے کر آج تک تضادات کا شکار رہی ہے۔ اس کے داغدار دامن پر بیشمار الزامات ہیں۔
اس کے بانی الطاف حسین پر اغوا،قتل اور بغاوت جیسے درجنوںمقدمات ہیں یہ غدار وطن برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستاں کیخلاف مذموم ساشوں میں مصروف کار ہے۔جب کہ پاکستان میں موجود ایم کیوایم الطاف حسین کی جماعت سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ہے لیکن عوام کی اکثریت اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ایم کیو ایم جب سے معرض وجود میں آئی ہے اس کی نفرت انگیز اور تعصب کی سیاست نے کراچی کا امن تباہ کرکے رکھ دیا ۔ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھااس جماعت کے سیاست میں آتے ہی شہریوں کے اغوا، قتل اور بوری بند لاشیں ملنا کراچی میں معمول بن گیا ۔بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی نفرت اور تفریق کی بنیاد پر رکھی کراچی میں مہاجرازم کا نعرہ لگا کر اردو سپیکنگ لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔
مہاجر تو پورے ملک میں موجود ہیں جو قیام پاکستان کے موقع پر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان بھر میں مختلف جگہوں پر آباد ہو گئے تھے ان میں پنجابی،سندھی ،بلوچ اور پٹھان شامل ہیں لیکن ان سب کی پہچان بطور پاکستانی ہی ہے مہاجروں نے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں نہایت اہم کردار کیا اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے ان میں سابق گورنرجنرل لیاقت علی خاں سے لے کر سابق صدر جنرل ضیاعالحق، سابق صدر جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صدیقی،جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی مرحوم، جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن ،موجودہ صدر مملکت ممنون حسین، سابق وزیر اعظم محمدعلی بوگرہ ،سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین تک بہت زیادہ لوگ ہیں جو نہ صرف مہاجروں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کے لیے باعث افتخار ہیں انھوں نے بطور مہاجر نہیں بلکہ بطور پاکستانی بہت زیادہ عزت اور شہرت کمائی۔لیکن الطاف حسین نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے محب وطن مہاجروں کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے۔
کراچی کے اردو بولنے والوں کو بطور پاکستانی شناخت دینے کی بجائے انھیں مہاجر ازم کی سازشی اور نفرت انگیز سیاست کی بھینٹ چڑھایا۔جس طرح مہاجر پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اسی طرح اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جسے پنجابی،پٹھان،سندھی اور بلوچی بلاامتیاز بولتے ہیں مہاجر نہ تو کوئی علیحدہ قوم ہیں اور نہ ہی اردو کسی ایک قوم یاکسی صوبے کی زبان ہے۔لیکن الطاف حسین نے اردو بولنے والے مہاجروں کو اپنی مذموم گندی سیاست کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔حالانکہ اردو بولنے والے مہاجر دیگر تمام پاکستانیوں کیطرح محب وطن پاکستانی ہیںجنھوں نے مملکت خداداد پاکستان کے لیے قربانیاں دیں اور ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان میں آئے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ پوری قوم کی طرح اب مہاجر بھی الطاف حسین کی ملک دشمن سیاست سے آگاہ ہوچکے ہیں وہ ملک میں نفرت کی علامت ہے جسے پوری پاکستانی قوم ناپسند کرتی ہے اس کی گندی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوچکی ہے ۔ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان جو ماضی میں الطاف حسین کی گندی سیاست کا حصہ رہے ہیں ان کے لیے موقع ہے کہ یہ لوگ اپنے عملی اقدامات سے ثابت کریں کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کارغداروطن مفرور الطاف حسین کی گندی اور مکروہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔اور آنے والے عام انتخابات میں قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہو کرپاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار کریں ۔اسی صورت میں ہی ایم کیوایم پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے بصورت دیگر اس کا حشر بھی اس کے بانی اور لندن والوں جیسا ہوگا ۔جو پاکستان میں شجرممنوعہ قرار پا چکے ہیں۔