پاکستان کی معاشی شہ رگ اور سونے کی چڑیا کہلانے والا شہر قائد ‘ کراچی’ کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے۔ کراچی کا سیاسی مینڈیٹ اس وقت 2018کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی جھولی میں گرچکا ہے۔ 2013کے عام انتخابات میں بھی کراچی کی عوام نے غیر متوقع طور پر تحریک انصاف کو ایسے کئی حلقوں میں بھی مینڈیٹ دیا تھا جہاں ان کا کوئی پولنگ ایجنٹ بھی موجود نہ تھا۔لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اہل کراچی کا سیاسی مائند سیٹ کی تبدیلی کا احساس سنجیدگی سے نہیں لیا اور کراچی کو ” اون ” کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا۔تاہم2018کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے ایک ایسی ‘ ہوا ” چل نکلی تھی ، جس کے بعد کراچی سے ایک مرتبہ پھر غیر متوقع پر بھاری مینڈیٹ ملا ۔کراچی میں تحریک انصاف کی کامیابی ویسے ہی سامنے آئی جب مہاجر قومی موومنٹ بننے والی نئی جماعت نے کراچی سے جماعت اسلامی و شاہ احمد نورانی گروپ سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے سیاسی بت گرا دیئے تھے اور کراچی سے کلین سوئپ کرکے اہل کراچی کا 70فیصد مینڈیٹ حاصل کرلیا تھا۔
2018میں اہل کراچی نے تاریخ کو دوہرایا ہے یا کوئی بھی وجہ ہو ، لیکن اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اپنے بانی کے مائنس ہونے کے بعد جتنا بھی ووٹ ملا ، وہ ایک خالص مینڈیٹ ہے۔ جو کئی مراحل کے بعد چھلنی ہوکر ان کے پاس آیا اور ایک مرتبہ پھر وفاق میں حکومت سازی کے لئے کراچی ہی کنگ میکر بن رہا ہے اور متحدہ نے ہر وفاقی حکومت میں کنگ میکر کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی بننے والی وفاقی حکومت کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومتی بینچوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔بلاشبہ متحدہ قومی موومنٹ کو اُس کی توقعات سے کم قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملیں ، اس کی وجوہات پر بحث کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنا آسان ہوگا کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنے تنظیمی خلفشار اور انتشار کے باوجود غیر متوقع طور پر ایک اہم سیاسی جماعت کی شکل میں اہمیت اختیار کرگئی۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کئی بار حکومت میں شمولیت اور رخصت کے بعد ایم کیو ایم ( پاکستان) کی جانب سے پاکستا ن تحریک انصاف کے ساتھ شمولیت کے فیصلے کو مختلف نکتہ نظر سے دیکھا جارہا ہے۔متحدہ کی جانب سے تحریک انصاف کی حمایت کے فیصلے کے دور رس نتائج میں ایم کیو ایم پاکستان کی کسی غیر معمولی کامیابی کی توقعات کم سمجھی جا رہی ہیں۔
سیاسی پنڈت متحدہ کی تحریک انصاف کے ساتھ حکومت سازی کے لئے اتحاد کو پائدار نہیں قرار دے رہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ ایم کیو ایم ( پاکستان) بظاہر مائنس بانی ایم کیو ایم کے بغیر ایک نئی جماعت کی شکل میں سامنے آئی ہے لیکن اس وقت ایم کیو ایم ( پاکستان) کو جن مسائل کا سامنا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف انہیں حل کرنے کے لئے کراچی کا مینڈیٹ انہیں دینے میں تامل کا مظاہرہ کرے گی۔ پاکستان تحریک انصاف نے بڑی مشکلات کے بعد کراچی میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اہل کراچی کا خود سے اعتماد سبوتاژ کرنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کو کھلا میدان فراہم کرے۔نیز پاکستان تحریک انصاف کو نمبر گیم میں خصوصی نشستوں میں اضافے کے بعد ایم کیو ایم کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی اس لئے ایم کیو ایم اپنے مطالبات منوانے کے لئے ماضی کی طرح دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی اور پاکستان تحریک انصاف کی ممکنہ کوشش ہوگی کہ اضافی نشستیں ملنے کے بعد وہ جلد ازجلد ایم کیو ایم ( پاکستان) سے جان چھڑانے کے لئے انہیں نظر انداز کرنا شروع کردے ۔ جس کے بعد ماضی کی طرح ایم کیو ایم ( پاکستان) کسی نئے اتحاد کا حصہ بننے کے لئے حکومتی بینچوں سے الگ ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم ( پاکستان) کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ حکومت میں اتحادی بننا کئی بار ناخوشگوار رہ چکا ہے ۔ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے اب ایسے کوئی شر پسندعوامل بھی مداخلت کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے جس کی وجہ سے کراچی بد امنی کا شکار ہوجاتا تھا اور کراچی کے متاثر ہونے کے سبب پورے ملک کو دبائو کا سامنا ہوتا تھا۔اپنے کالموں میں اظہاریہ کرچکا ہوں کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کو اپنے نئے مینڈیٹ کے ساتھ اب قومی دھارے میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں لسانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ صوبہ سندھ کی تقسیم جیسے مطالبات سے سندھ کی لسانی اکائیوں میں بدظنی اور عدم برداشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے اس لئے انہیں اپنی پوری توجہ سیاسی خلفشار کے خاتمے ، باہمی نا اتفاقیوں کے ازالے اور خالص مینڈیٹ کی خدمت پر مرکوز کرنی چاہیے۔
کراچی کی سیاست کا منظر نامہ ، کراچی آپریشن کے بعد ہی بدل چکا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے تمام علاقے اس بار کسی بھی جماعت کے لئے نو گو ایریا نہیں تھے۔تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بلا خوف اپنی انتخابی مہم کو چلایا ، انتخابی ریلیاں اور جلسے جلوس منعقد کئے۔ایم کیو ایم ( پاکستان) کی جانب سے یہ الزام ضرور سامنے آیا کہ ان کے جھنڈے اور پوسٹر اتارے گئے ۔ لیکن راقم کا مشاہدہ رہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اے این پی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور پوسٹر ضابطہ اخلاق کو جواز بنا کر اتارے گئے۔ایم کیو ایم ( پاکستان) کے لئے سب سے بڑا چیلنج پاک سر زمین پارٹی تھی ۔ جن کا دعوی تھا کہ اہل کراچی کے پاس پاک سر زمین پارٹی کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ حسب توقع پاک سرزمین پارٹی کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کی وہ خواہش کررہی تھی ۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کو متنازع قرار دے رہی ہیں ۔ پاک سرزمین پارٹی بھی دیگر جماعتوں کی طرح انتخابات کو متنازع قرار دیتی ہے۔ اس لئے ان معاملات کو موضوع بنانے سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے ان عوامل اور زمینی حقایق کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے جس کے سبب بڑے بڑے سیاسی بت زمین بوس ہوئے۔
ممکنہ طور پر کراچی سے عمران خان اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے دستبردار ہوسکتے ہیں ۔ پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال اگر دوبارہ طالع آزمائی کریں تو انہیں غالب امکان ہے کہ قومی اسمبلی میں پاک سر زمین پارٹی کی نمائندگی کا موقع فراہم ہوسکتا ہے۔ گو کہ ایم کیو ایم کے فاروق ستار اپنی انتخابی نشست ہار چکے ہیں لیکن عمران خان کی جانب سے NA 243کی نشست چھوڑنے کے بعد اگر ایم کیو ایم پاکستان سید علی رضا کے بجائے ڈاکٹر فاروق ستار کو ٹکٹ دیتی ہے تو ممکن ہے کہ ایم کیو ایم ( پاکستان ) یہ نشست حاصل کرلے یا پھر مصطفی کمال کی طالع آزمائی ان کے لئے خوش خبری کا پیغام لے آئے ۔ کیونکہ عمران خان کے 51358کے مقابلے میں ایم کیو ایم (پاکستان) نے 42082ووٹ حاصل کئے تھے ۔NA 53میں عمران خان کے مقابل کوئی سیاسی امیدوار ٹک نہیں سکا تھا ۔ NA 35 میں اکرم درانی نے عمران خان کے 113822کے مقابل 106820ووٹ حاصل کئے تھے ۔ ممکنہ طور پر مولانا فضل الرحمن اگر اس نشست پر آتے ہیں تو قومی اسمبلی میں ان کی واپسی کی راہ میں کوئی بڑی رکائوٹ حائل نہیں ہوگی۔ NA131بھی ایک ایسا حلقہ ہے جہاں سے پاکستان مسلم لیگ کے سنیئر رہنما خواجہ سعد رفیق عمران خان کی اس نشست سے دستبرداری کے بعد واپس آسکتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے 83633 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ عمران خان نے 84313ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ا ہم سیاسی رہنمائوں کی قومی اسمبلی کی واپسی کے لئے ضمنی انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔قوم پرست رہنما محمو د خان اچکزئی ، اسفندیار ولی خان، غلام احمد بلور اور آفتاب خان شیر پائو سمیت امیر مقام، شاہد خاقان عباسی، چوہدری نثار علی خان ،عابد شیر علی، جیسے سیاسی رہنمائوں کو پارلیمنٹ سے باہر رہ کر سیاسی سرگرمیاں کرنا ہوگی۔ تاہم یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ عمران خان کی دست بردار ہونے والی چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی کو ناکامی کا سامنا ہو، کیونکہ وفاق و صوبے میں حکومت سازی کے بعد عوام کا رجحان اتنے جلدی بھی تبدیل ہونا ممکن نظر نہیں آتا ، تاہم اس حوالے سے صرف امکانات کا جائزہ لیا ہے کہ کئی اہم قومی سیاسی رہنمائوں کو پارلیمنٹ میں ایک مخصوص مدت کے بعد دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پارلیمنٹ میں موجودگی سیاسی اتار چڑھائو کا سبب بنتی رہے گی۔ضمنی طور پر قومی منظر نامے میں صوبائی سیاست کے حوالے سے تبدیلی کو اب قومی سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لسانی اکائیوں اور قوم پرستی کی سیاست کے دور کو ختم کرنے کیلئے ایک نئے عمرانی معاہدے کا احیا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کراچی کی مثال دینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کراچی میں وفاق سے لیکر صوبے کی حکمرانی تک تمام تجارب کو آزمایا جاچکا ہے ۔ لیکن کراچی کے حالات ہر گذرتے دن کے ساتھ بگڑتے ہی دکھائی دیئے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے دہشت گردی کی فضا میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ لیکن اہل کراچی میں اعتماد کی بحالی کے لئے قومی سیاسی جماعتوں کو ہی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کراچی میں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ماضی کی پالیسیوں کو درست کرنے کے لئے سنہرے موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے تو دوسری جانب انہیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ عام انتخابات میں اس بار بالکل نئی جماعت تحریک لبیککی دو نشستوں پر کامیابی کراچی کے عوام کے نئے رجحان کی جانب بھی توجہ مرکوز کرا رہی ہے۔پی ایس 107سے پی پی پی کے جاوید ناگوری کو تحریک لبیک کے یونس سومرو نے شکست دی۔ اسی حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے محمد اصغر سے 15915، پی پی پی کے محمد جواد نے 14390جبکہ متحدہ مجلس عمل نے 12512ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اس حلقے سے تحریک لبیک کے یونس سومرو نے 26248ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے ۔دوسری نشست تحریک لبیک کے مفتی محمد قاسم فخری نے پی ایس 115سے21596ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے عبدالرحمن نے15068پاکستان مسلم لیگ (ن) کے غلام شعیب نے 13449اور متحدہ نے10404ووٹ حاصل کئے۔تحریک لبیک نے قومی اسمبلی کی 175 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ پنجاب اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد 364 جبکہ سندھ میں 68 امیدوار تھے۔پنجاب میں بننے والی اس جماعت نے دو نشستیں کراچی سے لی ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر اس کے امیدوار دوسرے نمبر پر ہیں جن میں لیاری سے احمد بلال قادری نے 42345 ووٹ حاصل کیے تھے، ان کے ووٹوں کی تعداد بلاول بھٹو سے زیادہ ہے۔ بلال قادری سنی تحریک کے بانی سلیم قادری کے بیٹے ہیں۔
کراچی اس وقت بلدیاتی مسائل میں بری طرح جکڑا ہوا ایک ایسا شہر بن چکا ہے جہاں کا انفرا سٹرکچر تباہ ، صفائی کا نظام برباد ، نکاسی و فراہمی آب کے گنجلگ مسائل نے اہل کراچی کی فرسٹریشن میں بری طرح اضافہ کردیا ہے۔اہل کراچی اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ، روشنیوں کے شہر کو ہنگامی بنیادوں پر صوبے و وفاق کی فوری توجہ درکار ہوگی۔ اگر ماضی کی طرح کسی بھی سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی کو ایک بار پھر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو ممکن ہے کہ پانی جیسے خطرناک ایشو پر ایسی صورتحال پیدا ہوجائے جیسے کنٹرول کرنے کے لئے تلخ اقدامات کرنے کی ضرورت پیش آسکے۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور گورنر پاکستان تحریک انصاف کا ہوگا ۔ کراچی میں ایم کیو ایم ( پاکستان) اور تحریک انصاف کے درمیان ضلعی سطح پر ہونے والا اتحاد اب وفاق تک ہوچکا ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے ضلع غربی کے ڈسٹرکٹ چیئرمین ایم کیو ایم ( پاکستان) جبکہ نائب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے ہیں جو بلدیاتی انتخابات میں اتحاد کے بعد کامیاب ہوئے ہیں۔ گو کہ ضلع غربی چیرمین شپ کے حوالے سے مسائل کا شکار رہا تاہم عام انتخابات سے قبل چیئرمین شپ کا مسئلہ حل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ( پاکستان) کے درمیان ضلعی سطح پر اتحاد کے ثمرات عوام تک کس طرح پہنچ پائیں گے ہنوز عوام اس کی منتظر ہے۔یہی صورتحال اب وفاق میں بھی ہوگی۔ گو کہ پاکستان تحریک انصاف کراچی کے حوالے سے کئی ترجیحات اپنے منشور میں شامل کرچکی ہے اگر اس پر عمل درآمد ممکن کردیا جاتا ہے تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اہل کراچی کے اصل مینڈیٹ کا ہما پاکستان تحریک انصاف کے سر پر بیٹھ سکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی صوبے میں دس برس کی مسلسل حکومت کے باوجود کراچی میں اپنا ”سکہ ”جمانے میں اس لئے ناکام رہی تھی کیونکہ سیاسی مفاہمت کی سیاست نے پی پی پی کو کراچی اونر شپ لینے سے روکے رکھا اور گینگ وار کی حمایت کی وجہ سے پی پی پی اپنے آبائی مضبوط گڑھ لیاری میں بھی پریشانی کا شکار رہی ۔ بلدیات واٹر بورڈ اور کے ڈی اے سمیت کئی اداروں پر پی پی پی کی گرفت سیاسی مفاہمت کی وجہ سے مستحکم نہیں تھی ، اسی طرح پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے امن کو مستحکم کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا۔ پی پی پی کی توجہ اپنے دیہی علاقوں کی جانب رہی ۔ عین انتخابات کے موقع پر کچھ شہری علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے کی روش سے اہل کراچی کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ پی پی پی نے عموماََ یہ روش اختیار کی ہوئی ہے کہ بلدیاتی یا پارلیمانی انتخابات سے قبل اپنے پارٹی عہدے داروں کو خصوصی فنڈز جاری کرکے ڈپٹی کمشنر کے توسط سے من پسند علاقوں میں غیرمعیاری اور ناپختہ ترقیاتی کام کراتی ہے۔ جب انتخابات کا دور گزر جاتا ہے تو پی پی پی علاقوں کی جانب توجہ مرکوز نہیں کرتی اور اپنے سندھ کونسل کے ممبران کے توسط سے بلدیاتی مسائل حل کرانے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ صرف مخصوص علاقوں میں کرتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کو شہر کراچی میں مستحکم مینڈیٹ حاصل نہیں ہو رہا۔ پی پی پی کی تیسری بلا شرکت غیرے حکومت کی روش بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح رہی تو اس کا نقصان پی پی پی کو اٹھانا پڑسکتا ہے۔
کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے عام شہری کا جواب حوصلہ افزا نظر نہیں آتا ۔ یہاں تو ٹھیک ہے کہ 2018کے عام انتخابات میں کراچی میں مار ڈھاڑ نہیں ہوئی ، مخالفین کے کیمپ نہیں جلائے گئے، سیاسی مخالفین کو مخصوص علاقوں میں جانے سے روکا نہیں گیا ۔عالم ارواح سے ووٹرز کے ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے۔ آزادی کے ساتھ ووٹ کاسٹ ہوئے۔ 6بجے کے بعد کیا ہوا۔ یہ ایک ایسی متنازع بحث ہے جس کا جواب ” تاریخ ” ہی دے گی۔ تاہم اب سندھ حکومت کے مقابل اپوزیشن کا کردار تحریک انصاف کے پاس ہے ۔ وفاق میں حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہوگی۔ اس صورتحال میں کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اہل کراچی بنیادی سہولتوں سے محروم شہر ہے ۔ پینے کا پانی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ ہائی ڈرینٹ مافیا کو تو پانی میسر ہے لیکن یہی پانی اہل کراچی کے گھر بغیر معاوضہ ادا کئے بغیر نہیں آتا۔ ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں ہے ۔ اڑن کھٹولوں کی وجہ سے کراچی کی عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔ ٹریفک کا اژدھام اور نظام کے نہ ہونے کے سبب اہل کراچی نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ، اسٹریٹ کریمنل بننے کی بنیادی وجوہات میں روزگار کی عدم فراہمی ہے کیونکہ کئی عشروں سے کراچی میں کوئی نئی صنعت نہیں لگی۔ سرمایہ دار بھتوں کی وجہ سے پاکستان کے دوسرے شہر منتقل ہوگئے یا پھر پاکستان ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ سرکاری میدانوں ، فلاحی پلاٹوں پر قابضین ابھی تک موجود ہیں ۔ کھیل کے میدانوں پر چائنا و رشئین کٹنگ کے بعد کمرشل پلازے بنے ہوئے ہیں۔ تجاوزات و کچرے کے ڈھیر کا یہ شہر ارباب اقتدار کی توجہ چاہتا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبائی وسائل اور اختیارات میں اضافہ ہے ۔ تحریک انصاف صوبائی سطح پر اس پوزیشن میں نہیں کہ اُس کے نمائندے کراچی کے مسائل حل کرسکیں گے تاہم وفاق کی حکومت جانب سے ملنے والے خصوصی پیکچز ہی کراچی کو مسائل کے گرداب سے باہر نکال سکتی ہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف اہل کراچی سے کئے جانے والے وعدوں کو کس حد تک پورا کرتی ہے۔ اگر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان محاذآرائی نے کراچی کے مسائل کے حل کرنے میں رکائوٹ پیدا کی تو کراچی احساس محرومی میں ناقابل تلافی اضافہ ہوجائے گا۔ جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا ۔پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اہل کراچی سے کئے جانے والے وعدے پورے کرتی ہے یا نہیں ۔ اہل کراچی اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے وعدوں کی تکمیل کی منتظر ہیں۔