تحریر : عبدالرزاق چودھری ۱۱ جون انیس سو اڑسٹھ کا سورج طلوع ہوا تو الطاف حسین نے جامعہ کراچی میں مہاجر سٹوڈنٹس کو ایک چھتری تلے جمع کر کے ایک تنظیم کی بنیادرکھی جو آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے موسوم ہوئی اور یوں الطاف حسین نے بانی چیرمین کی حیثیت سے اس تنظیم کی کمان سنبھال لی۔ اس تنظیم کے وجود میں آتے ہی جامعہ کراچی کے پر امن ماحول میں ارتعاش پیدا ہوا اور یونیورسٹی کا ماحول انتشار کا شکار ہو گیااور اس تنظیم کی دوسری طلبہ تنظیموں سے تصادم کی خبریں عوام زد زبان ہو گئیں اور اس طرح یونیورسٹی کی فضا میں تشدد کا عنصر غالب آ گیا۔
اینس سو اناسی کو الطاف حسین بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے حق میں آواز اٹھانے کے جرم میں گرفتار کر لئے گئے اور قانون کی پامالی کی پاداش میں الطاف حسین کو پانچ کوڑوں کی سزا سمیت جیل کی ہو ا کھانا پڑی ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد الطاف حسین جب رہا ہوے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے سنگ اپنی تنظیم کو پورے کراچی میں پھیلانے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم کراچی بھر میں مشہور ہو گئی اور کراچی کے باشندوں کی نمایاں تعداد ایم کیو ایم کے گیت گانے لگی۔۔
اٹھارہ مارچ انیس سو اڑتالیس کو ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کر کے متحدہ قومی موومنٹ کی چادر اوڑھ کر سیاست کے افق پر نمودار ہوئی۔اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کراچی میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت بن کر راج کرنے لگی او ر اس کی مقبولیت کے گراف میں سندھ میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص اضافہ ہونے لگا۔ایم کیو ایم نے خود کو مڈل کلاس جماعت ہونے کا تاثر دیا جس میں اسے نمایاں کامیابی بھی ملی لیکن ساتھ ہی کراچی میں لسانی فسادات کی آگ بھڑک اٹھی جسے آج تک ایم کیو ایم کے ہی کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ان الزامات کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور بہت جلد قومی سیاست میں اپنی نمایاں حیثیت منوانے میں کامیاب ہو گئی۔ملکی سیاست میں ایم کیو ایم نے بھرپور حصہ لینا شروع کر دیا اور انتخابات میں اس کے امیدوار کراچی کی نشستوں پر دھڑا دھڑ کامیاب ہونے لگے۔
MQM
سال انیس سو بانوے کا تذکرہ کریں تو اس سال کراچی کے حالات کچھ زیادہ ہی بگڑ گئے۔ تشدد کی ہوشربا وارداتوں سے کراچی کے درودیوار کانپنے لگے سندھ میں امن و امان کی حالت مخدوش ہو گئی۔ کراچی کے دگرگوں حالات کے پیش نظر حکومت وقت نے کراچی میں امن و امان کے قیام کی خاطر فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا جس کا رخ جلد ہی ایم کیو ایم کی جانب مڑ گیا کیونکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے اداروں کو مصدقہ اطلاعات تھیں کہ ایم کیو ایم حالات کی خرابی کی براہ راست ذمہ دار ہے ۔یاد رہے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اس آپریشن کے آغاز سے قبل ہی لندن عازم ہو چکے تھے اور لندن سے ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔
انیس سو بانوے کے آپریشن کے دوران روزانہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے حوالے سے نت نئے نئے انکشافات کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی ٹارچر سیل دریافت ہوتے رہے اور کبھی بوری بند لاشوں کی داستانیں عام ہوئیں۔ ان الزامات کی روشنی میں ایم کیو ایم کے سرکردہ رہنماوں پر مقدمات بھی قائم کر دئیے گئے ۔ یہ وہ دور تھا جب ایم کیو ایم پھوٹ کا شکار ہو گئی اور دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ۔ایک دھڑا علیحدہ ہو کر آفاق احمد کی قیادت میں ایم کیو ایم حقیقی بن گیا۔
سال انیس سو ستانوے اور مہینہ جولائی تھا جب مہاجر قومی موومنٹ متحدہ قومی موومنٹ میں بدل گئی جس کا مقصد یہ بتایا گیاکہ ایم کیو ایم اب نہ صرف مہاجروں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائے گی بلکہ سوسائٹی کے دیگر مظلوم طبقات کے حقوق کی بھی جنگ لڑے گی۔
ایم کیو ایم نے تاثر دیا کہ وہ کراچی سمیت پورے پاکستان میں اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہے پھر دو ہزار دو میں ہونے والے جنرل الیکشن میں ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کراچی سے نمایاں کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ ق کی ہمرکاب ہو کر اقتدار کے ایوان میں براجمان ہو گئی جبکہ اسی عرصہ میں ایم کیو ایم سندھ کی گورنری کے بھی مزے لوٹتی رہی اور اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی منظور نظر بن گئی ۔ ایم کیو ایم نے بھی کھل کر پرویز مشرف کا خوب ساتھ نبھایا اور آج تک ایم کیو ایم کے رہنماوں کے دل میں پرویز مشرف کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔
جب دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا میلہ سجا تو متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت وجود میں آئی ۔یاد رہے اس وقت تک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی مخالف جماعت تصور کی جاتی تھی اچانک پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بن کر ابھری اور الطاف زرداری یکجان ہو گئے۔اگرچہ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی تو تھی لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان کراچی پر بالادستی کی جنگ اندرون خانہ پوری شدو مد سے جاری تھی۔بار بار اختلافات کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے اتحاد سے علیحدہ ہو گئی۔
MQM Workers Arrested
یہی وہ مقام تھا جہاں ایم کیو ایم کی سیاست میں یکسانیت کا عنصر مفقود ہو گیا اور تب سے بالخصوص الطاف حسین کے سیاسی افکار منتشر نظر آنے لگے کبھی وہ فوج کے حق میں بیان بازی میں اس حد تک آگے نکل جاتے کہ فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کی دعوت دے ڈالتے او ر ان کو پاکستان کے ہر مسلہ کا حل فوج کی چھڑی میں نظر آتا اور فوج کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے اور کبھی اچانک فوج کو زہر آلود انداز میں ہدف تنقید بناتے اور پاکستان کے معتبر اداروں کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے اور بعض مواقعوں پر تو دھمکی بھی دے ڈالتے۔اسی طرح وہ کبھی مظلوم اور غریب کا ساتھی بن کر بڑے طمطراق سے ایم کیو ایم کو مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت کے طور پرپیش کرتے اور جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکارتے دکھائی دیتے لیکن جب اقتدار کا مزہ لوٹنے کا وقت آتا تو انہی آمروں،ج اگیرداروں اور وڈیروں کے ہمراہ اقتدار کی راہداریوں میں محو عیش و نشاط نظر آتے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں ایم کیو ایم پر الزامات کی اک نئی فہرست بھی سامنے آئی ہے جن کی وجہ سے ماضی کے بر عکس ایم کیو ایم زیادہ مشکلات کا شکار ہے لندن میں الطاف حسین مقدمات کی زد میں ہیں جن میں منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کیس نمایاں ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو را سے رابطوں اور انڈیا سے فنڈنگ جیسے سنگین الزام کا بھی سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نائن زیرو سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور اشتہاری بھی ایم کیو ایم کے گلے کی ہڈی بنے ہوے ہیں۔
ان مشکلات کو دیکھتے ہوے ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی ،سینٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیاتاکہ حکومت پر دباو بڑھایا جا سکے لیکن ایم کیو ایم کا یہ حربہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا اور کچھ ہی عرصہ بعد ایم کیو ایم استعفے واپس لے کر دوبارہ اسمبلی کا حصہ بن گئی ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ الطاف حسین کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے بیان بھی ایم کیو ایم کی مقبولیت میں کوئی زیادہ شگاف نہیں ڈال سکے اس کا واضح ثبوت ہمیں بلدیاتی انتخابات میں مل چکا ہے۔ ایم کیو ایم نے حیدرآباد میں اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھا اور تیسرے مرحلے میں کراچی میں بھی صورتحال حیدرآباد سے مختلف دکھائی نہیں دیتی۔