تحریر : شیخ خالد زاہد بغیر کسی تاریخی حوالے کہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا موقع آنے کو ہے، ایسا گمان کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالی اچھے گمان کو یقین میں بدل دیتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا ایک انتہائی اہم شہر ہے اس کی اہمیت ہم پاکستانیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیا جہان کیلئے بہت اہم ہے۔ یوں تو ہر وہ شہر جہاں بندرگاہ یا بندرگاہیں ہوتی ہیں اہم ہی ہوتا ہے۔ 1947 میں پاکستان آزاد ہوا اور بھارت سے ہجرت کر کہ آنے والو کو سندھ کہ ایک شہر کراچی میں آباد کیا گیا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں آبادکاری شروع ہونی تھی جہاں ترقیاتی کام ہونے تھے۔ کراچی کو پاکستان کا پہلا “دارلخلافہ” ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ مگر ناگزیر وجوہات کی بناء پر اسے اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر کا ایک مخصوص حصہ زیرِ استعمال تھا باقی شہر ابھی ویران سا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سمندر کے ساتھ ساتھ زندگی رواں دواں تھی تو شائد غلط نہیں ہوگا۔ پھر آبادکاری شروع ہوئی اور لوگوں نے اپنے اپنے آشیانوں کی اپنے گھونسلوں کی تعمیر شروع کی اور آہستہ آہستہ اپنے ماضی سے پیچھا چھڑاتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے برسرِپیکار ہوگئے۔ وقت پرانی فلموں میں گھومنے والے پہیے کی طرح نہیں گھوم رہا تھا مگر گزرتا جا رہا تھا۔
وقت بدل گیا کراچی شہر پاکستان کا معاشی حب بن گیا اور پاکستان کو 70٪ ریونیو پیدا کر کے دینا شروع کردیا۔ پاکستان کے دیگر شہروں پر کراچی کو پہلے دن سے ہی فوقیت دی گئی اب یہ فوقیت دی گئی یا کراچی شہر میں پہلے سے ہی موجود تھی کچھ کہنا ٹھیک نہیں ہے اور ویسے اس اہمیت کی ایک اہم ترین وجہ بندرگاہ رہی ہے۔ اس شہر میں دیگر مذاہب اور تہذیبیں موجود تھیں جسکا منہ بولتا ثبوت کراچی شہر کی تاریخی عمارتیں اور بازار ہیں۔ کراچی کو بین الاقوامی شہر بھی اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے مگر وقت نے تیزی سے بدلنا شروع کیا اور بین الاقوامی شہر قومی شہر میں بدلنا شروع ہوگیا بین الاقوامی کی حیثیت معدوم ہونا شروع ہوگئی۔
پاکستان سیاسی بحرانوں کی زد میں ہمیشہ ہی رہتا ہے یہ سیاسی بحران خود ساختہ بھی ہوتے ہیں تو دوسری طرف کسی سیاست دان کی “انا” کی بھینٹ بھی چڑھادئے جاتے ہیں۔ ان سیاسی بحرانوں کا فائدہ ہمارے ملک کی افواج نے بھرپور طریقے سے اٹھایا اور یہ ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی کے پاکستان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے اور گاہے بگاہے اقتدار پر براجمان رہی۔ فوج کے بغیر پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ پاکستان کا وہ واحد منظم اداراہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان پاکستان ہے اور وہ کون سا کام ہے جس کے لئے جمہوری حکومتوں کو فوج کی ضرورت نہیں پڑتی ملک میں سیلاب آجائے، زلزلہ یا پھر ملک میں مردم شماری کروانی ہے وغیرہ وغیرہ، پاکستانی فوج صرف خارجی ہی نہیں بلکہ داخلی محاذوں پر بھی سب سے آگے نظر آتی ہے۔ ایسا ہی ایک دور تھا جنرل ضیاء الحق (شہید) کا جب کراچی میں احتجاج ہی احتجاج تھے۔ ایسے میں کراچی میں ایک تنظیم نے جنم لیا اور اسے مہاجروں (جو لوگ بھارت سے ہجرت کرکے آئے تھے) کی نمائندہ جماعت بنایا گیا اور اسکا نام مہاجر قومی موومنٹ رکھا گیا۔ اس جماعت نے مزاحمتوں کے باوجود کراچی شہر میں اپنا اثر و رسوخ بنایا اور پاکستانی سیاست میں ایک نیا سیاسی باب رقم کیا جب کراچی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں نے مہاجر قومی موومنٹ نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں میں بھرپور کامیابی حاصل کرکے اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اس سیاسی جماعت کی مقبولیت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا گیا اور یہ کراچی سے نکل کر سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں پھیلتی چلی گئی۔ایم کیو ایم نے 1988 کے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور کامیابی نے اس جماعت کے قدم چومے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ کرتا پاجامہ پہنے یہ لوگ موجود تھے اور یہ لباس ان اعوانوں میں شائد اس سے پیشتر کوئی زیبِ تن کئے نہیں گیا تھا۔
اس سیاسی جماعت کا بنیادی نکتہ “کوٹہ سسٹم کے خاتما” تھا۔ ایم کیو ایم نے کراچی کیلئے اور کراچی والوں کیلئے کام کرنا شروع کیا۔ یہ چکاچوند کردینے والی مقبولیت اور طاقت سنبھالنا آسان نا تھا، یہ ذراسا حواس باختہ ہوئے اور سب کا سب ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ ایک لوٹ کھسوٹ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ مہاجر قومی موومنٹ سے ملکی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے کیلئے یا پورے پاکستان کے مظلوم عوام کی نمائندہ جماعت بننے کیلئے اور اپنے اوپر سے لسانیت کا ٹھپہ ہٹانے کیلئے جماعت کا نام تبدیل کردیا گیا اور مہاجر کی جگہ متحدہ کا لفظ لگادیا گیا۔ دیگر وجوہات کے ساتھ اس جماعت کی تقسیم کا باعث بننے کی ایک کلیدی وجہ یہ بھی تھی۔ 1992 میں اس سیاسی جماعت کیساتھ ملک کا تاریخی جوجی آپریشن کیا گیا اور دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر ایم کیوایم کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایم کیو ایم کس کو پسند تھی یا ہے اور کس کو نا پسند ہے اسکی کیا خوبیاں اور خامیاں ہیں اس سے قطع نظر ایم کیو ایم کراچی والوں کی نمائندہ جماعت بن چکی اور ان کے دلوں میں گھر کر چکی تھی۔ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت 1988 سے 2013 تک کہ انتخابات کا جائزہ لینے کہ بعد ہوجائے گا۔ دیوار سے لگانے کی سازشوں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کردیا گیا مگر ووٹ کا استعمال اس بات کی گواہی دیتا رہا کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا تو اسکو توڑنے کی سازشیں کی جانے لگیں اور ان سازشوں کے نتائج بظاہر حوصلہ افزاء نظر آئے مگر وقت نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو کامیابی سے ہمکنار کردیا۔
ایم کیو ایم سے ٹوٹ کر ایم کیو ایم (حقیقی) کے نام سے چلنے والی جماعت کے چیئر مین آفاق احمد صاحب نے گزشتہ روز ایک انتہائی سنجیدہ موضوع پر پریس کانفرنس کی اور اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ کراچی کی بقاء کیلئے کسی سے بھی مفاہمت کرنے کو تیار ہیں۔ یقیناً کراچی کی سیاست میں اسے ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا کہا جاسکتا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ نقصان ذاتی نوعیت کا ہو تو کوئی بات نہیں یہاں نقصان اپنے شہر کا ہو رہا ہے اور افراد پستی میں گرے جا رہے ہیں۔اب ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی ایک پریس کانفرنس کرنی چاہئے اور اس خوشگوار ماحول کو اور خوشگوار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کراچی ابھی زندہ ہے اور اسے گدھوں کے حوالے کرنے سے ان ہی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
، ایم کیوایم سے نکلنے والی جماعتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ کسی کو کچھ نہیں ملنے والا اسلئے کراچی کے شہریوں کہ حق میں یہی بہتر ہے کہ ان تمام سازشی عناصر کے منہ بند کردئے جائیں اور سب باہمی اتفاقِ رائے سے ایک ہوجائیں اور کراچی کی بقاء کیلئے مثبت سمت میں پیش قدمی شروع کریں۔ اگر ماضی کی پوٹلیاں اور سازو سامان لے کر بیٹھنا ہے تو پھر نا ہی بیٹھیں تو زیادہ بہتر ہوگا، ماضی کی تمام تلخیوں کو ختم کر کے آگے بڑھیں اور اپنے آنے والے کل کو بہتر بنانے کا تہیہ کریں، ماضی کو اندھے کھڈے میں دفن کر کہ آگے کی طرف پیش قدمی کریں اور اسی میں کراچی کا امن پوشیدہ ہے اور کراچی کی ترقی کی بقاء ہے۔آپ سڑکوں کا جال بچھادیں پاور پلانٹ لگا دیں مگر یہ طے ہے کہ دراصل کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ اب ان سارے دھڑوں کو ایک جگہ بیٹھنا چاہئے اور آنے والے دنوں کی تیاری کرنی چاہئے۔ یہ بھی ممکن ہے شہر کے امن کیلئے ملک کی ترقی کیلئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک نکاتی ایجنڈہ بنالیں کہ کسی بھی قسم کی کرپشن نا کرینگے اور نا کرنے دینگے اور تمام تر توانائیاں مثبت تبدیلیوں پر صرف کرینگے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنا پڑے گا۔ملکوں اور قوموں کی بقاء انکے متحد رہنے میں ہی ہے۔