جناب چیف جسٹس کی عدالت میں

Corruption

Corruption

تحریر : ایم آر ملک
کرپشن کی یلغار میں بالا طبقے میں لوٹ مار کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
ہرمحب وطن اضطراب میں گھرا ہوا ہے۔ زندگی تیزی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔کرپشن ایک تسلسل کے ساتھ سماج کا تانابانا بکھیر رہی ہے۔ریاستی اداروں کے بتدریج زوال کا باعث ہے ۔نودولتئئے سرمایہ داروں کی من مانیاں ہیں کہ ملکی وسائل کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا جارہا ہے ۔حرص ایک اقلیت کے مفادات کی تجوریاں بھر رہی ہے ۔کرپشن اور لوٹ مار کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی کمپنیاں منافعوں کی ہوس میں خونی کھیل کھیل رہی ہیں ۔لاشوں کا کاروبار جاری ہے ۔خوشاب میں تاحد نظر پھیلے پہاڑی سلسلہ میں کان کنوں کی زندگی آج صلیب پر مصلوب نظر آتی ہے ۔ماضی کی بساط پر پھیلے خدشات گواہ ہیں کہ معدنی ذخائر ہڑپ کرنے والی نجی کارپوریشنیں تاحد ِ نظر پھیلے سلسلہ کوہستان نمک میں بھوک ،وحشت اور درندگی پھیلا کر محض اپنے صنعتی ایمپائر کھڑے کر رہی ہیں جن کے مالکان سے حب الوطنی کی اُمید بے وقوفی نہیں جرم ہے۔
وطن ِ عزیز میں بڑے عہدوں پر فائز ریاست کے وظیفہ خور گدھ بن چکے ہیں۔ لامحدود منافع کی شرح سے دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹی جارہی ہے۔استحصال کرنے والی قوتیں ہمیشہ اقلیت میں ہوا کرتی ہیں اور جب تک ان کرپٹ قوتوں کو بد عنوان آفیسرز کا کندھا میسر نہ ہو وہ استحصال نہیں کر سکتیں۔

یہ سوال آج بھی جواب مانگتا ہے کہ کیا معدنی ذخائر کی کانوں میں کام کرنے والی اجرتی محنت نے اپنے لئے کوئی ملکیت پیدا کی ؟اس کا جواب نفی میں ہے ۔یہ اجرتی محنت تو صرف سرمایہ پیدا کر رہی ہے اور وہ ملکیت جو سرمائے پر حق ِملکیت رکھتی ہے اس اجرتی محنت کا گوشت نوچ رہی ہے ۔آج ایشیا میں نمک کی سب سے کان پر اجارہ دار قوت اور PMDCکے کرپٹ مافیا کا گٹھ جوڑ سرمائے کے تسلط کی دلالی بن چکا ہے ۔تسلط کا یہ جبر نمک کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش طبقہ کو اپنے جبڑوں میں لئے ہوئے ہے ،ندامت کا وہ احساس تک نظر نہیں آتا جو کان کنوں کی حادثاتی موت پر آنا چاہیئے ۔PMDCکے لٹیرے آفیسروں کا معاشی نسخہ ہی کرپشن ہے جو بھاری کمیشن کے ساتھ درجنوں گنا دولت لوٹ کر اُن کے اکائونٹ بھر تی جا رہی ہے۔

حب الوطنی کا جرم ایک ایسی ریاست میں سانس لینے کا ہے جو کرپشن کی اذیت گاہ میں سسک رہی ہے ۔اقتدار کی سیاست میں ضمیر نام کا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا ،کرپشن سے آلودہ چہروں پر ندامت کا کوئی قطرہ نہیں ۔کرپشن عوام کے معیار زندگی کو گرا رہی ہے اُن سے انسان ہونے کا حق چھین رہی ہے ۔نیب نام کی کوئی مخلوق موجود ہی نہیں نیب جیسے ادارہ کی طرف سے چلایا جانے والا جملہ ”say no to crruption”ہمارا منہ چڑا رہا ہے اُس مافیا کا تحفظ کرنے میں لگا ہواہے جو کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ ڈال کر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔

ایان علی جیسی کرپشن کوئین کو گرفتار کرنے والے محب وطن آفیسر کی ٍپر اسرار موت پر نیب کا ضمیر آج بھی خاموش تماشائی بن کر قہقہے لگا رہا ہے مگر اس مشکل عہد میں محب وطن طبقہ ایک صبر ،استقامت کے ساتھ اس مافیا کے خلاف یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ بالآخر کرپشن کنگ اپنے ناخن چبانے پر مجبور ہوں گے یہ بھی خوشاب میں کرپشن کی ایک ایسی داستان ہے جس نے حب الوطنی کے چہرے کو دھندلا دیا ہے پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن نے 1982میں کوڑیاں قائد آباد ضلع خوشاب میں نمک کی لیز کے حصول کیلئے محکمہ مائینز اینڈ منرلز پنجاب کو درخواست گزاری مگر 14 برس بعد 502ایکڑ کے کثیر رقبہ میں سے 121ایکڑ رقبہ جہاں عالمی معیار کا نمک نکل رہا تھا۔

قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیر کر سفارش کی بنیاد پراور ملی بھگت سے پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کو الاٹ کرنے کے بجائے ایک منظور ِ نظر فرم غنی مائینز لائسنس نمبر ML.KHB.ROCK SALT 3کو الاٹ کردیا گیا اس میں پنجاب حکومت کے اس رول کو بھی بائی پاس کیا گیا جس کے تحت پہلے درخواست دہندہ کو ہی یہ ایریا الاٹ کیا جاسکتا ہے یہ 121 ایکڑ ایریانہ صرف قابل استعمال شدہ تھا بلکہ پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کا اپلائی شدہ تھا کرپشن کی اس داستان کا پس منظر یہ ہے کہ اس غیر آئینی الاٹمنٹ کا سہرا غنی مائینز کے بزنس پارٹنرسابق ایڈیشنل ڈائریکٹر مائنز اینڈ منرلز عظمت بیگ کی اہلیہ ،راشدالقمر سابقہ چیف انسپکٹر آف مائینز خالد پرویز جو المہندس کارپوریشن میں آن دی ریکارڈ اور غنی مائنز میں آف دی ریکارڈ بزنس پارٹنر ز ہیں۔

اُن کے لائسنس بھی اس کرپشن کی واضح نشاندہی کرتے ہیں جس میں غنی مائنز کا لائسنس نمبر ML KHB ROCK SALT 3اور المہندس کارپوریشن کا لائسنس نمبر ML KHB ROCK SALT 2ہے سابقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر مائنز اینڈ منرلز عظمت بیگ کی اہلیہ المہندس کارپوریشن کی ڈائریکٹر ہے غنی مائنز کو خلاف ضابطہ الاٹ کئے گئے ایریا سے روزانہ 700ٹن سالٹ کی پروڈکشن ہوتی ہے جس کی قیمت 1200روپے فی ٹن سے لیکر5900روپے فی ٹن ہے روزانہ 21لاکھ روپے کا نمک نکالا جارہا ہے نہ صرف پروڈکشن کم ظاہر کی جارہی ہے بلکہ کرپشن کی اس رقم سے ان کی صنعتوں کا پہیہ رواں دواں ہے ماہانہ کروڑوں روپے کے ٹیکس کی چوری اس کے علاوہ ہے پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن ریاست کا ادارہ ہے جس میں بیٹھے کرپٹ مافیا کی ملی بھگت سے یہ داستان اپنے انجام کو پہنچتی ہے وڑچھہ کے حق نواز اور قائد آباد کے ڈیرہ چناں والا کے عامر حیات کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ ابھی تک حب الوطنی کی سانسوں کو بحال رکھے ہوئے ہیں۔ رولز کے تحت 121ایکڑ اراضی پر بھی پہلا حق اسی ریاستی ادارہ کاتھا جس کی دسترس میں آنے کے بعد اگر ایمانداری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو پچاس ملین کی ماہانہ کثیر رقم کا اضافہ ممکن ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا اس کا از خود نوٹس چیف جسٹس آف پاکستان کو لینا چاہیئے خورشید رضوی مرحوم نے کہا تھا کہ۔۔۔

جن لوگوں میں رہتا ہوں میں اُن میں سے نہیں ہوں
ہوں کون مجھے اپنا زمانہ نہیں ملتا

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک