جناب حامد میر نے شاہ محمود قریشی کی جانب بھاری پتھر پھینکا ہے۔ اخبار جنگ کی شکل دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا ہے جب سے اس گروپ نے عمران خان سے پنگا لیا ہے پاکستان کی اکثریت کی طرح ہم نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ہے ۔لیکن کہیں نہ کہیں سے ان کے کالم نویسوں کی تحریریں نظر سے گزرتی ہیں۔حامد میر جنہیں بہت سے لوگ موجودہ دور کا سلطان راہی بھی کہتے ہیں جن کے پیٹ میں آٹھ گولیاں لگی تھیں اور وہ جاتے جاتے نعرہ ء تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہے۔اس صحافی کو جب گولیاں لگیں ہم نے ملالہ ڈرامے کی دوسری قسط گردانا۔بہر حال یہ ہماری کبھی بھی خواہش نہیں رہی کہ وہ کسی کی گولی کا شکار ہوں ۔نظریاتی اختلافات اپنی جگہ اللہ انہیں اور ان جیسوں کو راہ راست پر لائے آمین۔ وہ جیتے رہیں اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں۔
میرا موضوع ان کے تازہ ترین کالم کا جواب دینا ہے یہی میری ذمہ داری بھی ہے اس کالم کا جواب جو انہوں نے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پر لگائے ہیں۔ان کے کالم کا بنیادی حدف قریشی صاحب کے اباء و اجداد کے اوپر طعن کرنا تھا انہوں نے کر دی۔اب باری ہماری ہے لیکن ہمارا جواب ان کے لء اس شعر سے شروع کرتا ہوں۔ اتنی نہ بڑھا پاکی ء داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا دیکھ ذرا بند قباء دیکھ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے میری ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی طور پر بھی میں سمجھتا ہوں کہ کم از اس قسم کے صحافیوں کو ٹکاسہ سا جواب دیں جو صحافی سے زیادہ کالنگ فون بن چکے ہیں۔
حامد میر نے اپنے کالم کی ابتداء جنگ آزادی سے کی ہے اور شاہ محمود قریشی کے اباء و اجداد کا کردار اپنے ادارے کی نظر سے پیش کیا ہے میں اس کا جواب دیتے ہوئے ٤٤ سال پہلے ہونے والے غدر سے کروں گا۔ انہوں نے خانوادہ ء قریش کی دین کے لئے خدمات کا بھی ذکر کر دیتے تو کتنا اچھا تھا۔کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ خطہ ء ملتان سے سرائیکی بیلٹ اور اندون سندھ تک اسلام کی دعوت بھی اسی مرد حق نے پھیلائی جس سے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔کبھی وارث میر کے فرزند ملتان رحیم یار خان،صادق آباد، چاچڑاں شریف، اباڑو، میر پور متھیلو ،گہوٹکی، سکھر، عمر کوٹ کا سفر کرتے تو انہیں علم ہوتا کہ بزرگان دین کی محنتوں اور اللہ کے کرم سے کس طرح ملحد لوگ دائرہ ء اسلام میں داخل ہوئے۔
اسلام کی روشنی اس خطے میں شاہ محمود قریشی کے اباء کی وجہ سے پھیلی۔اس میں کوئی شک نہیں اور صوفیاء کرام کا بھی بڑا ہاتھ ہے مگر اس میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کے بڑوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اپنے بدنام ادارے کی طرح حامد میر تحریک انصاف کے چیئرمین کی دشمنی میں ان کے ساتھیوں پر حمہ آور ہوئے ہیں۔جیو اور جنگ آج کل کافی خرچہ کر رہے ہیں۔کہتے ہیں اونچائی سے گرنے سے لوگ مر جاتے ہیں لیکن نظروں سے گرنے والوں کی نسلوں کو قیمت چکانی پڑتی ہے۔کہاں ہے کل کا جیو اور جنگ جو بھولو پہلوان تھے جنہیں انوکی نما عمران نے چاروں شانے چت کر دیا۔
جنگ آزادی کے وقت علماء کرام کے کردار پر انہوں نے جو دور کی کوڑی ہمارے سامنے پیش کی ہے اگر اسے بعین مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے انگریزوں کی معاونت کی تو اسے انفرادی نہیں اجتماعی غلطی ہوئی تھی۔بہت سے علماء کرام کا خیال تھا کہ مملکت انگلیزیہ ولی الامر ہیں اور ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔اس میں بہت سے صوفیاء کرام اور مشائیخ شامل رہے ۔یقینا اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا بعین جب پاکستان بن رہا تھا تو علماء کی بہت بڑی تعداد نے پاکستان بنانے کی مخالفت جن میں سید مودودی، مفتی محمود ،علماء دیو بند مولاناحسین احمد مدنی ،ابوالکلام آزاد اور دیگرجید علماء شامل تھے۔
کیا ان علماء کی اسلام کے لئے قربانیوں کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔چودھری رحمت علی جنہوں نے اس پاکستان کی شدید مخالفت کی اور ناراض ہو کرلندن چلے گئے کیا ہم ان اکابرین کو ملک دشمن کہہ سکتے ہیں ہر گز نہیں۔ اس لئے کہ ان میں سے اکثر کا خیال تھا کہ بانی ء پاکستان جس ٹیم کے ساتھ اسلام کے لئے ایک تجربہ گاہ حاصل کر رہے ہیں اس ٹیم میں اسلامی چیز نظر نہیں آ رہی۔شنید ہے کہ قائید اعظم نے بھی کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔علمائے دیو بند نے آزادی ء ہند میں انگریز کے جتنے مظالم سہے ہیں اس کی ایک تاریخ ہے۔گرچہ ان کے اس کردار کا تیا پانچہ مولانا فضل الرحمن نے کر دیا ہے مگر ان علماء نے حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کے ساتھ مل کر فتنہ ء قادیانیت کی بیخ کنی کی۔
ہند سے انگریز کے انخلاء کے لئے احرار اور ان علماء کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا۔یہ تو اللہ کی دین ہے کہ وہ جسے سوج بوجھ عطاء کر دے سو وہ قائید اعظم کے حصے میں آئی اور انہوں نے قدرے ایک کٹا پھٹا چھوٹا پاکستان لینا گوارا کیا ۔کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ جمہوریت کبھی مسلمانوں کو سر اٹھانے نہ دے گی اور وہ ہمیشہ ہندو کے غلام رہیں گے۔بعین یہ غلطی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہت سے علماء اور مشائخ راجے مہا راجوں نے کی۔اگر آپ سر زمین ہزارہ اور پشتون علاقوں میں دیکھیں تو یہ لوگ راجے سردار سواتی خان گجر سب اس میں شامل رہے۔
ہزارہ ڈویزن میں سب سے بڑی جاگیر ی ملکیت کوٹ نجیب اللہ کے گجروں کے پاس ہے۔ہری پور میں راجہ سکندر زمان فیملی بھی شامل رہی ان میں تو راجہ سکندر کا نام راجہ جارج تھا اور ان کے بھائی کا ایرج عثمان کھٹڑ کے سردار سکندر حیات خضر حیات سب انگریز کے ساتھی رہے ہیں۔ٹوانے ٹمن غرض اگر سندھ تک جایا جائے تو سب چیمے چٹھے ٹمن ٹوانے ہراج دوللتانے وینس جتوئی بلوچ کھوسے لغاری مزاری مہر تالپور بھٹواسمبلی میں بیٹھے اکثر کے دادے پردادے وہی کچھ کرتے رہے جس کاذکر حامد میر کر رہے ہیں۔
Balochistan
اقبال نے انہی کو مخاطب کیا تھا نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے بلوچستان کی تو تاریخ بھری پڑی ہے۔میں سمجھتا ہوں نہ ہی شاہ محمود وریشی اور نہ ہی میں ان کے اس کردار کو ڈیفینڈ کر سکتے ہیں۔مگر۔۔۔۔مگر کیا ان کی اس غلطی کو ان کی نیکیوں اور اچھائیوں پر بھاری قرار دیا جائے متذکرہ بالا اکثر دین و ایماں بیچتے رہے لیکن ان میں ایک منفرد تو وہ تھا جس کے دم قدم سے خطہ ء ملتان مسلمان ہوا اور خانوادہ مکہ سے آنے والے قریشی تھے ۔ ایک طرف ان کی انگریزوں سے وفاء کا معاملہ اور دوسری طرف احیائے دین کی عظیم کوشش۔اب میں فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں
وہ شاہ محمود قریشی کو ان کے پردادا کی غلطیوں کی سزا دیتے ہیں یہ انہیں اس عظیم المرتبت شخص کی اولاد ہونے کے ناطے سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جو انہوں نے آقائے نامدار کے دین کو پھیلانے میں ایک کردار ادا کیا۔فیصلہ عوام کا۔ جناب حامد میر اب ہم آتے ہیں ماضی قریب کی جانب۔ایک ملک بنتا ہے اسلام کے نام پر جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا جاتا ہے۔اس ملک خداداد کو بنے ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے اور قرارداد مقاصد پاس ہوتی ہے جس میں حاکمیت صرف اللہ تعالی کی قرار دی جاتی ہے۔
اسی ملک عظیم کو سید مودودی مسجد قرار دیتے ہیں۔ابھی صرف تئیس برس گزرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بنے ملک کے ایک حصے میں زبان کی بنیاد پر ایک الگ ملک بنانے کی تحریک چلائی جاتی ہے۔وہ ڈھاکہ جہاں مسلم لیگ بنی تھی وہاں کے ایک شخص نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے مل کر پاکستان کے پر امن شہریوں پر ظلم ڈھا رکھا ہے۔بہاری اور مغربی پاکستانیوں پر ہندوستان کہ شہہ پر ایک تنظیم مکتی باہنی بنائی جاتی ہے۔اس مکتی باہنی میں انڈین ہندو بھی شامل ہوتے ہیں ان کی باقائیدہ فوج بنگالی کارکنوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔
مغربی پاکستانیوں اور بہاریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور پاکستانی فوج اپنے ہی علاقے میں امن قائیم کرنے پہنچتی ہے تو اسی مغربی پاکستان سے چند لوگ انڈین ایجینٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔جن کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے۔پراپوگینڈے کی انتہاء کر دی جاتی ہے۔ان میں ایک شخص وارث بھی ہوتا ہے۔یہ شخص بنگالیوں کے قتل عام کی جھوٹی کہانیاں لکھتا ہے۔اس کے پاس پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء صحافت کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔بھارتی اس کی کہانیوں کو آکاشوانی سے نشر کرتے ہیں ریڈیو کا دور تھا بی بی سی بھی اس پنجابی صحافی کی آواز کو اہمیت دیتی ہے۔وہ پاک فوج کے خلاف اتنا مذموم پراپوگینڈہ کرتا ہے۔
ایک روز اس کی سٹوری ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتی کہ پاک فوج ڈھاکہ میں ظلم کرتی ہے اس نے ہزاروں بنگالنوں کا ریپ کیا ہے اور عوامی لیگ ان عورتوں کے بچوں کو پیدائیش سے پہلے ایک خاص علاقے اور ہسپتال میں ضائع کرانا چاہتی ہے۔دنیا فوج کے اس کردار کی مذمت کرے۔اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ الحفیظ الاماں۔ پاکستان کو شکست ہو جاتی ہے۔ڈھاکہ فال ہو تا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ کی بد ترین شکست۔
ایک نیا ملک وجود میں آتا ہے۔جس کا نام بنگلہ دیش ہے۔بنگلہ دیش آزادی کے ہیروز کو سلام پیش کرنے کے لئے ایک تقریب کا انعقاد کرتا ہے۔پنجابی وارث جس کی آواز کو پوری دنیا میں سنا گیا جس کے جھوٹ کو کوئی جھٹلا نہ سکا اس کے لئے کہ وہ پنجابی تھا اور فوج بھی پنجابی بیان کی گئی دنیا نے سمجھا کہ فوج ہی کی زبان بولنے والا لاہور سے تعلق رکھنے والا پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء صحافت کا سربراہ یہ کیوں جھوٹ بولے گا۔ اس کے ہر جھوٹ کو سچ مان لیا گیا۔گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔
معاملے تو اور بھی تھے مگراس آستین کے سانپ نے پاکستانی فوج کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت بنتی ہے پہلے چند سالوں میں گزشتہ صدی کے سب سے بڑے جھوٹ کو دھان منڈی میں دفن کر دیا جاتا ہے بنگلہ بندھو موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں وہی بنگالی فوج جو وارث کے پراپوگینڈے کا شکار ہوئی تھی اس نے ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کا بدلہ شیخ مجیب کو اور اس کے اہل خانہ کو قتل کر کے لیا۔ عوامی لیگ اقتتدار سے باہر ہو جاتی ہے۔ڈھاکہ ایک بار پھر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے۔وقت گزرتا ہے خالدہ ضیاء انتحاب ہارتی ہیں اور پھر شیخ مجیب کی بیٹی اقتتدار سنبھالتی ہے۔
پاکستان کے لئے جانیں دینے والوں کے لئے پھانسیاں سجائی جاتی ہیں ان جھولوں میں ملا عبدالقادر بھی جاتا ہے اور بہت سے بھی۔بہاریوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ان کے کیمپ برماو ی مسلمانوںکے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ مگر ٹھہریے بیچ میں چشم فلک اس غدار وارث کے وارث کو ایک تمغہ ء آزادی سے بھی نوازتے دیکھتی ہے۔حسینہ واجد پسر غدار کو تمغہ پہناتی ہے ۔تمغہ کون لیتا ہے اور جب اس اس کی گردن خم ہوتی ہے کہ باہنیں اٹھیں اور اسے سرفرازیں پانی ہانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جو غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من قارئین !بات لمبی ہو گئی ہے وہ غدار کون تھا اس کا نام تھا وارث میر اور وہ جھکنے والی گردن کس کی تھی وہ گردن تھی حامد میر کی۔
بس فیصلہ آپ کا ہے کہ کسے غدار ٹھہراتے ہیں اس غدار کو جو لاکھوں کو مسلمان کرتا ہے یا اس غدار کو جو ہمارے ازلی دشمن کے ہاتھوں بکتا ہے۔وارث میر کی اولاد ایک ایسے سانپ کے سنپولئے ہیں جن سے کبھی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی یہ ٧٠ میں بھی پاکستانی فوج کا مذاق اڑاتے رہے اور آج بھی اس کی تضحیک کرتے ہیں۔انہیں اجمل قصاب پاکستانی دکھائی دیتا ہے اور بھارت محسن۔سلطان راہی تو مسجدیں بناتا تھا تم پاکستان کی مسجد ڈھاتے ہو نہ صرف تم تمہارا باپ بھی۔ حامد میر میں تمہیں چیلینج کرتا ہوں کی آئو چوک میں کھڑے ہو کر مناظرہ کر لو میں تمہیں ثابت کروں گا کہ داغی تمہارا باپ تھا اور داغی تم بھی ہو۔