تحریر: رشید احمد نعیم معجزہ چونکہ نبی کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے ایک خداوندی نشان ہوا کرتا ہے اس لیے معجزہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خارقِ عادت ہو یعنی ظاہری علل و اسباب اور عادات جاریہ کے بالکل ہی خلاف ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کفار اس کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو فلاں سبب سے ہوا ہے اور ایسا تو ہمیشہ عادةً ہوا ہی کرتا ہے اس بنا پر معجزہ کے لیے یہ لازمی شرط ہے بلکہ یہ معجزہ کے مفہوم میں داخل ہے کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے اسباب عادیہ اور عادات جاریہ کے خلاف ہواور ظاہری اسباب و علل کے عمل دخل سے بالکل بالاتر ہو تا کہ اس کو دیکھ کر کفار یہ ماننے پر مجبور ہو جاہیں کہ چونکہ اس چیز کا ظاہری کوئی سبب بھی نہیں ہے اور عادةًایسا کبھی ہوا بھی نہیں کرتا اس لیے بلاشبہ اس چیز کا کسی سے ظاہر ہونا انسانی طاقتوں سے بالاتر کارنامہ ہے لہذا یقینا یہ شخص اللہ کی طرف سے بھیجا ہو ہے ا ور اس کا نبی ہے ہر نبی کا معجزہ چونکہ اس کی نبوت کے ثبوت کی دلیل ہوا کرتا ہے اس لیے خداوند عالم نے ہر نبی کو اس کے دور کے ماحول اور اس کی امت کے مزاج اور عقل و فہم کی مناسبت سے معجزات سے نوازا چنانچہ مثلا ًحضرت موسیٰ کے دور میں چونکہ جادو اور ساحرانہ کارنامے اپنی ترقی کی اعلی ترین منزل پر پہنچے ہوئے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آپ کو ید بیضا اور عصا کے معجزات عطا فرمائے جن سے آپ نے جادو گروں کے کارناموں پر اس طرح غلبہ حاصل فرمایا کہ تمام جادو گر سجدے میں گر پڑئے اور آ پ کی نبوت پر ایمان لے لائے۔
اس طرح حضرت عیسےٰ علیہ السلام کے زمانے میںعلم طب انتہائی معراجِ ترقی پر پہنچا ہوا تھا اور اس دور کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے بڑئے بڑئے امراض کا علاج کر کے اپنی فنی مہارت سے تمام انسانوں کو مسحور کر رکھا تھا اس لیے اللہ تعالی نے حضرت عیسےٰ کو مادرزا داندھوں اور کوڑھوں کو شفا دینے اور مردوں کو زند ہ کردینے کا معجزہ عطا فرمایا جس کو دیکھ کر دورِمسیحی کے اطبا ء اور ڈاکٹروں کے ہوش اڑ گئے اور وہ حیران و ششدررہ گئے اوہ بالاآخر انہوں نے معجزات کو انسانی کمالات سے بالاتر مان کر آپ کی نبوت کا اقرار کر لیا ،اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کے دور بعثت میں سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کے حالات کا بہت چرچا تھا اس لیے خداوند تعالی نے آپ کو معجزہ عطا فرما کر بھیجا کہ آپ نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ فرما دیا تو اس کی چٹان شق ہو گئی اور اس میں سے ایک بہت ہی خوبصورت اور تندرست اونٹنی اور اس کا بچہ نکل پڑا اور آ پ نے فرمایا کہ” یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمھارے لیے معجزہ بن کر آئی ہے ،، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم آ پ کا یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے آ ئی ،الغرض اسی طرح ہر نبی کو اس کے دور کے ماحول کے مطابق اور اس کی قوم کے مزاج اور ان کی افتا د طبع کی مناسبت سے کسی کو ایک’ کسی کو دو اورکسی کو اس سے زیادہ معجزات ملے مگرہمارے نبی آخرالزمان حضرت محمدۖ چونکہ تمام نبیوں کے بھی نبی ہیں اور آپ کی سیرتِ مقدسہ تمام انبیاء علیہم السلام کی مقدس زندگیوں کا خلاصہ ہے اور آپ کی تعلیم تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا عطر ہے۔
Muhammad PBUH
آپ دنیا میں ایک عالمگیر اور ابدی دین لے کر تشریف لائے اور عالم کائنات میں اولین و آخرین کی تمام اقوام و ملل آپ کی مقدس دعوت کے مخاطب تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات ِ مقدسہ کو انبیاء سابقین کے تمام معجزات کا مجموعہ بنا دیا اور آپ کو قسم قسم کے بے شمار معجزات سے سرفراز فرمایا جو ہر طبقہ ، ہر گروہ، ہر قوم اور تمام اہل ِ مذاہب کے مزاج اور عقل و فہم کے لیے ضروری تھے اسی لیے آپ کی صورت، آپ کی سیرت ،آپ کی سنت و شریعت، آپ کے اخلاق واطوار اور معمولات زندگی میں آپ کی ذات و صفات کی ہر ہر ادا اور ایک ایک بات اپنے دامن میں معجزات کی دنیا لیے ہوئے ہے۔آپ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ آپ کا سب سے بڑااور قیامت تک رہنے والا ابدی معجزہ ہے ۔آپ کے معجزات عالم اعلیٰ اور عام ِاسفل کی کائنات میں اس طرح جلوہ فگن ہوئے کہ فرش سے عرش تک آپ کے معجزات کی عظمت کا ڈنکا بج رہا ہے۔روئے زمین پر جمادات ،نبادات،حیوانات کے تمام عالموں میں آپ کے طرح طرح کے معجزات کی ایسی ہمہ گیرحکمرانی و سلطنت کا پرچم لہرایا کہ بڑے بڑے منکروں کو بھی آپ کی صداقت و نبوت کے آگے سرنگوں ہونا پڑا اورمعاندین کے سوا ہر انسان خواہ وہ کسی قوم ہ مذہب سے تعلق رکھتا ہو اپنی افتاد طبع اور مزاجِ عقل کے لحاظ سے کتنی منزلِ بلند پر فائز کیوں نہ ہو مگر آپ کے معجزات کی کثرت اور ان کی نوعیت وعظمت کو دیکھ کر اس کو اس بات پر ایمان لانا ہی پڑا کہ بلا شبہ آپ نبی ِبرحق اور خدا کے سچے رسول ہیں۔
آپ کی روحانی و جسمانی خداداد طاقتوں پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپکی حیاتِ مقدسہ کے مختلف دور کے محیرالعقول کارنامے خود عظیم سے عظیم تر معجزات ہیں۔کبھی عرب کے ناقابل ِتسخیرپہلوانوں سے کشتی لڑکر پچھاڑ دینا اور کبھی انگلیوں کے ا شارے سے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دینا ،کبھی ڈوبے ہوے سورج کو واپس لٹا دینا اور کبھی خندق کی چٹان پر پھاوڑہ مار کر روم و فارس کی سلطنتوں میں اپنی امت کو پرچم ِ اسلام لہراتا ہوا دکھا دینا، کبھی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر دینا اور کبھی مٹھی بھر کھجو رسے ایک بھو کے لشکر کو اس طرح راشن دینا کہ ہر سپاہی نے شکم ِ سیر ہو کر کھا لیا۔ انہی معجزات کی لڑی میں ایک اور عظیم معجزہ ہے عرش ِ معلی کی سیر ۔۔۔ جسے معراج النبیۖ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے معراج ِ نبویۖ تاریخ ِ اسلامی کا معروف ترین واقعہ ہے اور قرآن مجید میں دو مقام پر بیان ہوا ہے۔ایک جگہ سورة بنی اسرائیل کی ابتداء میں جہاں اسراء کا ذکر ہے اور یہ بیت اللہ سے مسجد ِاقصیٰ تک ہے اسے اسراء اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رات کا سفر تھا اور دوسرے حصے کو معراج کہا جاتا ہے جس کا ذکر سورہ نجم میں ہے ۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں اور یہ ان الفاظ سے ماخوذ ہے جو رسول کریمۖ نے خود ارشاد فرمائے کہ” مُجھے آسمان پر لے جایا گیا یا چڑھایا گیا”۔
معراج اور اسراء کا مقصدقرآن نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو نشانیاں دکھلانا تھیں۔ارشادِ خداوندی ہے ” تا کہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں” دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ” یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بڑی بڑی نشانیاں دیکھ لیں” اس اہم ترین سفر میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبراعظم ۖ کو بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر آسمانوں تک بہت سی نشانیاں دکھلا دیں معراج کی رات آپ کے گھر کی چھت کھلی۔ حضرت جبریل ٰ علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے۔آپ کو حرم ِ کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آبِ زم زم سے دھویا۔ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا۔پھر براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے۔براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔بیت المقدس پہنچ کر براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا گیا جہاں انبیاء اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے۔ آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں کی امامت کرائی ۔انبیاء کو نماز پڑھانے کے بعدآپ کو آسمان کی سیر کرائی گئی۔اس موقع پر حضرت جبریل ٰ علیہ السلام نے آپ کے سامنے شراب اور دودھ کا پیالہ پیش کیا آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبریل ٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے فطرت کو پسند فرمایا۔
Miraj-ul-Nabi
اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ پھر حضرت جبریلٰ علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کرآسمان پر چڑھے۔پہلے آسمان پر حضرت آدمٰ علیہ السلام سے ،دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ ٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔اور کچھ بات چیت بھی ہوئی، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ٰ علیہ السلام ،چوتھے آسمان پر حضرت ادریسٰ علیہ السلام ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونٰ علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جبکہ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ بوقت ملاقات ہر پیغمبر نے آپ کو خوش آمدید کہا اور صالح پیغمبر کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔اس کے بعد آپ سدرةالمنتہیٰ پر پہنچے۔اس درخت پر جب انوارِ الہیٰ کا پر تو پڑا تو ایک دم اس کی صورت بدل گئی اور اس میں رنگ برنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کی کیفیتوں کو الفاظ میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل ٰ علیہ السلام یہ کہہ کر ٹھہر گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں جا سکتا۔
پھر حضرت حق جل جلالہ نے آپ کو عرش بلکہ عرش کے اوپر جہاں تک چاہا بلا لیا۔اور خلوت گاہ ِراز میں نازونیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی بارگاہ الہیٰ میں بے شمار عطیات کے علاوہ تین خاص انعامات مر حمت ہوئے جن کی عظمت کو اللہ اور رسولۖ کے سوا کون جان سکتا ہے 1۔سورة البقرہ کی آخری تین آیات 2۔یہ خوشخبری کہ آپ کا ہر وہ شخص جس نے شرک نہ کیا ہو بخش دیا جائے گا 3 ۔امت پر پچاس وقت کی نماز ( جو بعد میں پانچ ہو گئیں مگر ثواب پچاس کا ہی ملے گا)َ۔پھر آپ عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں آپ نے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا۔ ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ مسجد حرام میں پہنچ کر (چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا) سو گئے۔ اور صبح کو بیدار ہوئے۔جب رات کے واقعات کا آپ نے قریش کے سامنے ذکر کیا توروسائے قریش کو بہت تعجب ہوا۔ کچھ بدنصیبوں نے آپ کوجھوٹا بھی کہا۔ بعض نے بیت المقدس کے متعلق سوالات کیے جس کا نبی اکرم ۖنے ٹھیک ٹھیک جواب دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے سب سے پہلے آپ پر یقین اور اعتماد کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فضیلت نبی اکرمۖ کے حصے میں آئی وہ کسی اور پیغمبر یا رسول کے حصے میں نہیں آئی۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم موبائل نمبر…………….0301.4033622 شناختی کارڈ نمبر………… 35103-04046892-7 ای میل…………………rasheed03014033622@gmail.com