مبارک ہو اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایوان بالا کے اراکین نے بھی کھل کرکہنا شروع کردیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں چور دروازے سے داخل ہوتے ہیں جبکہ مین دروازوں پر عوام بیٹھی ہوئی ہے یہ کھلی حقیقت ہے کہ جب انسان کے اندر چور ہو تو وہ چور راستہ ہی اختیارر کرتا ہے اگر عوام کے مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوتے تو آج کسی بھی منتخب عوامی نمائندے کو چور دروازے سے داخل ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی اگر یہ اراکین عوام سے کیے ہوئے وعدے پور کردیتے تو آج انہیں چھپنے کی ضرورت پیش نہ آتی اگر عوام کو انکے حقوق سے محروم رکھا جائے اور قومی خزانے پر ڈاکے ڈالے جائیں تو پھر عوام کے ہجوم سے ڈر کر چور دروازے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں آج تک عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں نے عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور آج نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے اور جو حکمرانوں سے اپنا حق لینے کی کوشش کرتا ہے اسے سر عام گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور پھر ان بے گناہوں کے خون کا حساب مانگنے پر مزید جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑے اور پھر بھی انصاف نہ ملے تو وہ جمہوریت وہ پارلیمنٹ جو عوام کے تحفظ کے لیے ہو وہاں سے بے گناہوں کے خون کا حساب مانگنا کہاں کا جرم ہے اگر یہ جرم ہوتا تو قانون کب کا حرکت میں آکر ان سب کو عبرت کا نشان بنا چکا ہوتا مگر یہ لوگ اپنے عوامی نمائندوں سے نہ صرف اپنا حق مانگنے آئے ہیں بلکہ 20 کروڑ پاکستانیوں کے حقوق کے بھی ضامن بن کر انصاف کے ایوانوں کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں یہ لوگ سچے ہیں اور محب وطن پاکستانی ہیں اسی لیے تو نام نہاد عوامی نمائندے اپنی عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر جانے کے لیے چور راستہ اختیار کررہے ہیں انہی سیاستدانوں نے عوام کو شعور نہیں آنے دیا یہی وجہ ہے کہ جب سے ملک میں جمہوریت کے نام پر سیاسی آمریت کا قبضہ ہوا ہے تب سے ہر شہری پریشان ہے۔
Inflation
اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد د وقت کی روٹی کے لیے شدید مشکلات میں نظر آرہے ہے اپنے بچوں کو انجینئرنگ کی انتہائی مہنگی تعلیم دلوا کرپھر ان سے کلرکی کروانا کسی بھی ماں باپ کی خواہش نہیں تھی مگر بے روزگاری اور مہنگائی کا یہ حال ہے کہ آجکل ہمارے انجینئر فارغ بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی کام نہیں مل رہا والدین کے خواب سب ملیا میٹ ہوچکے ہیں۔
جبکہ ہمارے ایم پی اے اور ایم این اے سوائے لوٹ مار اور اپنے پارٹی قائدین کے تحفظ میں مصروف ہیں ہمارے ایسے بھی ایم این اے ہیں جو گیس اوربجلی چوری سمیت جعلی ڈگری کے کیسوں میں ملوث ہیں مگر انکے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہوتی جبکہ ایک غریب انسان پر جھوٹا سائیکل چوری کا مقدمہ درج کرکے برسوں جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے پاکستان کے انہی حالات کے تناظر میں لکھی گئی ایک خوبصورت نظم ۔
جس دیس سے مائوں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کرلے جائیں جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی جس دیس میں حاکم ظالم ہوں سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی جس دیس کے عادل بہرے ہوں آہیں نہ سنیں معصوموں کی جس دیس کی گلی کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو جس دیس میں بنت ہوا کی چادر داغ سے میلی ہو جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جاپہنچے جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان حلق تک جاپہنچے جو دھرتی بھوک اگلتی ہو اور دکھ فلک سے گرتے ہوں جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں جہاں سچائی کے مجرم بھی زندان میں ڈالے جاتے ہوں جہاں مظلوموں کے خون سے محل اپنے دھوئے جاتے ہوں جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری ہوتے ہوں جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں سے اپنے بچے نیلام کرواتی ہو جس دیس میں دولت شرفاء سے ناجائز کام کرواتی ہو جس دیس کے عہدے داروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پر ہی ڈھالے جاتے ہوں اس دیس کی مٹی برسوں سے یہ دکھ جگر پہ سہتی ہو اور اپنے دیس کے لوگوں کو پھر آزادی مبارک کہتی ہو اس دیس کے رہنے والوں پر ہتھیار اٹھانے واجب ہیں اس دیس کے ہر اک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا ضروری ہے