تحریکِ پاکستان کے عظیم خانوادے سے تعلق رکھنے والے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی بر صغیر پاک و ہند میں دینی خدمات کے حوالے سے ایسا نام ہیں جو کسی بھی تعار ف کے محتاج نہیں ہیں۔ پاکستان میں ان لوگوں کی وجہ سے علمِ دین کے شمعیں فیروزاں ہیں۔تحریکِ پاکستان میں ان کے خاندان نے جو خدمات انجام دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔مولانا شبیر احمد عثمانی ہی وہ عالم دین تھے جن کو قائد آعظم کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔یہ ہی وجہ تھی قائد اعظم نے علامہ شبیر احمد عثمانی کو پاکستان کا پہلا پرچم ( مغربی) میں لہرانے کی سعادت بخشی تھی۔ یہ قائد اعظم کا اعتماد ہی ان علماءِ کرام پر تھا۔مولانا شبیر احمد عثمانی کی ہی جدو جہد کے نتیجے میں پاکستان کو اسلامی آئین سازی جانب لیجا یا گیا اورقرار دادِمقاصد کے ذریعے پاکستان کو اسلامی قانون سازی کی طرف گامزن کیا جا سکا۔
مولانا تقی عثمانی کی پیدائش 5،اکتوبر 1943کو ہنداستان کے مشہور شہر شاہجہاں پور کے علاقے دیو بند میں ہوئی۔آپنے دینی علوم کے حصول کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ناصرف گریجویشن کیا بلکہ ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1970 میں پنجاب یونیورسٹی مطالعہ اسلامی،عربی میں ایم اے نہایت اچھی پوزیشن میں پاس کیا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولانا صاحب علما ٗ کرام کی اس ٹیم کے رکن بھی ر ہے جس نے احمدیوں(قادیانیوں ) کو قومی اسمبلی کی ایک قرار داد کے ذریعے غیر مسلم قرار دلوانے میں صدر بھٹو کی1970میں معاونت کی اور کسی سے بھی پیچھے نہ رہے تھے۔ مارچ 2004متحدہ عرب امارات کے نائب سربرہ اور وزیر محمد بن راشد المکتوم نے مولانا تقی عثمانی کو لائف ٹائم اسلامک فنانسنگ کے لائف ایوارڈ سے نوازا ۔جو مولانا کی اسلامی فنانسنگ میں مہارت کا واضح ثبوت ہے۔مفت تقی عثمانی صاحب1981میں فیڈرل شریعہ کورٹ کے جسٹس بنا دئے گئےْ جس آپ نے دو سال خدمات انجام دیں۔
مولانا صاحب کو فقہ اسلامی اور معیشتِ اسلامی کابہت بڑا ماہر مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب اسلامی شریعہ بورڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔جومذکورہ آرڈیننس کے بانیوں میں بھی شمار کئے جاتے ہیں۔انہیں اسلامی فقہ پر زبردست دسترس حاصل رہی ہے۔ مفتی تقی عثمانی پر کراچی گلشنِ اقبال کی مصروف شاہرہ نیپا چورنگی پر 6 دہشت گردوں نے تین موٹر سائیکلوں پر تین سمتوں سے بیک وقت حملہ کیا ۔مگر قانونِ قدرت دیکھئے ’’جسے اللہ لکھے اُسے کون چکھے‘‘ کے مصداق اللہ نے اپنے اس فقیر کی زندگی کو ایسے محفوظ رکھا کہ اللہ کے اس فقیر کو خراش تک نہ آئی جبکہ ان کا ڈرایؤرشہید ہو گیا ۔گو دین و پاکستان کے دشمنوں نے تو کوئی کسر تک نہ چھوڑی تھی۔ ہم ان کے پرو موٹروں سے کہتے ہیں کہ اپنا یہ گھناؤنا اور سفاکانہ کھیل بند کرو ۔کیونکہ زندگی اور موت تمہارے نہیں اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جب اور جس بہانے سے چاہے گا لے لے گا۔ایک اور عالم دین مولانا عامر شہاب پر ان دہشت گردوں نے آدھے گھنٹے کے بعد حملہ کیا جس میں مولانا تو شدید ذخمی ہوئے مگر ان کا بھی ڈرئیور شہید ہو گیا،یہ دونوں فائرنگ کے واقعات ایک ہی سلسے کی کڑی ہیں۔
ہر جانب سے مفتی تقی عثمانی پر بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کہا ہے کہ ممتاز عالمِ دین پر حملہ لمحہِ فکریہ ہے۔انہوں کراچی میں علمائے کامکی گاڑیوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور جانوں کا زیاں پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔دوسری جانب صدر اور وزیراعظم نے بھی علمائے کرام پر حملے کی مذمت کی ہے۔ ممتاز عالمِ دیناور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے صدر مفتی منیب الرحمان نے بھی اس بزدلانہ کار وئی کی شدیدالفاظ میں مذمت کی ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجابن سے بھی مفتی تقی عثمانی پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔ ان کے علاوہ مولانا فضل الرحمانا اور اور انے ساتھی علماء نے بھی تقی عثمانی پر کئے جانے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی اس حملے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی ذاتی طور دالعلوم کورنگی پہنچ کو واقعے پر شدید غم و غصے کا اطہار کیا اور مفتی صاحب سے وقعہ پر ہمدردی کا اظہا ر بیے کیااور مساجد کی سیکورٹی کو بھی سخت کرنے کے احکامات دیئے پاکستان کے 78 وین یومِ پاکستان سے ایک دن قبل مولانا تقی عثمانی کو دہشت گردوں کے ہا تھوں شہید کرانے کی جو کوشش کی گئی ،اس میں یقینی طور پر اہلِ قادیان پیش پیش ہوں گے۔اس فعلِ قبیح کے ذریعے یقیناََ پاکستان میں انارکی پیداکرانے کی زبردست کوشش کی گئی تھی۔جس کے دو مقاصد تھے۔ ایک بھیانک مقصد تو یہ تھا کہ مولانا جیسی عظیم دینی شخصیت کو شہید کرا کے ملک میں انارکی پیدا کرادی جائے۔
دوسری مذموم کوشش یہ تھی کہ قادیانی ٹولے کو موجودہ یہودی ذہنیت کے حکمرانوں کے ذریعے پنپنے کا وطن عزیز میں بھر پور موقع فراہم کرا دیا جائے۔تاکہ ملک میں جو ننگا کلچر پیدا کرانے کی کوشش فا حشاؤں کے ذریعے کرائی جارہی ہے اس کی راہ ہموار کی جا سکے اوران ننگِ قوم ننگِ وطن لوگوں کے راستے میں کوئی چٹان جیسی رکاوٹ باقی نہ رہے ۔ان کے خلاف اُٹھنے والی کوئی بھر پور آواز باقی نہ رہے۔یہ ایجنڈا قادیانیوں اور ان کے پروان چڑھانے والے حمائتیوں کا ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔اس واقعے سے ہندوستان، ایران اور اسرائیل کو بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ ان تینوں ممالک سے بھی موجودہ حالات میں خیر کی امید عبث ہے۔ان باتوں سے اغماض نہیں برتا جا سکتا ہے۔در حقیقت یہ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کومزید تباہی کی جانب لیجانا چاہتے تھے۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com