کینیڈا (اصل میڈیا ڈیسک) کینیڈا میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سابق سعودی وزیر سعد الجابری نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان انہیں قتل کرنے کے لیے وہی ٹیم روانہ کی، جس نے ترکی میں جمال خاشقجی کو ہلاک کیا تھا۔
سعد الجابری سابق سعودی ولی عہد محمد بن نائف کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں محمد بن سلمان نے بن نائف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ تب الجابری وہاں سے اپنی جان بچا کر کینیڈا میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کے خلاف عدالتی کارروائی کا امکان کم ہے لیکن ان الزامات سے ان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا ہے۔
الجابری نے واشنگٹن ڈی سی کی ایک عدالت میں محمد بن سلمان اور ان کے چوبیس ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ الزام ہے کہ ان افراد نے ایک خصوصی دستہ کینیڈا روانہ کیا، جن میں جائے وقوعہ سے ثبوت و شواہد مٹانے والے ماہرین بھی شامل تھے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ محمد بن سلمان انہیں قتل کرنے کے لیے وہی ٹیم روانہ کی، جس نے ترکی میں جمال خاشقجی کو ہلاک کیا تھا۔
الجابری کے وکلاء کا کہنا ہے کہ قتل کا یہ منصوبہ اس وقت آشکار ہوا، جب کینیڈا کی بارڈر پولیس نے اس مشتبہ ٹیم کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی 107 صفحات پر مبنی درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ کینیڈین باڈر پولیس نے ان افراد سے دو بیگ بھی برآمد کیے، جن میں فرانزک ٹولز شامل تھے۔
کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر بل بلیئر نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ سعودی حکام نے بھی ابھی تک اس بارے میں کوئی وضاحت یا بیان جاری نہیں کیا۔
الجابری کے وکلاء کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ محمد بن سلمان نے ان کے موکل کو واٹس ایپ کے ذریعے قتل کی دھمکیاں بھیجیں، جن کے مطابق الجابری کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کرایا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الجابری کے سعودی عرب میں مقیم دو بچے زیر حراست ہیں۔
جرمن ٹھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے وابستہ سعودی امور کے ماہر گیڈو شٹائن برگ نے گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی وزارت داخلہ میں ایک طویل عرصے تک سنیئر عہدوں پر فائز رہنے والے الجابری ملکی سیاست پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ سعودی خارجہ پالیسی کے خفیہ رازوں سے واقف ہیں۔
گیڈو شٹائن برگ کے مطابق، ”اسی لیے محمد بن سلمان انہیں (الجابری کو) واپس لانا چاہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں۔‘‘
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے سن دو ہزار سترہ میں الجابری کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیے تھے لیکن کینیڈین پولیس کو شبہ تھا کہ اس کے سیاسی محرکات ہیں، جس کی وجہ سے الجابری کی سعودی عرب سپردگی کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
جمعرات سے سعودی عرب میں ایک ہیش ٹیگ گردش کر رہا ہے، جس کے مطابق الجابری کو بدعنوان قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں سوشل میڈیا پر ریاستی مداخلت انتہائی زیادہ ہے اور حکومت اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
گلوبل تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار پیس میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام سے وابستہ فیلو یاسمین فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سعودی میڈیا کے ردعمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان الزامات کے بعد ریاض حکومت اپنی ساکھ خراب ہونے کے بارے میں فکر مند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے نہ صرف سعودی حکومت کو ملکی سطح پر دباؤ کا سامنا کرنے پڑے گا بلکہ امریکا سے بھی تعلقات کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
شٹائن برگ کے مطابق چونکہ الجابری امریکی شہری نہیں ہیں، اس لیے امریکا میں وہ یہ مقدمہ نہیں چلا سکیں گے، ”وہ (الجابری) امریکا کے رہائشی بھی نہیں۔ وہ صرف (امریکا کے) ایک اہم سابق اتحادی ہیں۔‘‘
تاہم سعودی ایکٹیویسٹ عبدالعزیز الموئد کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان اپنی اور ملک کی عزت بچانے کی خاطر ان الزامات کا جواب دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد امریکی نظام انصاف کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔
یاسیمن فاروق کا کہنا ہے کہ اس مقدمے پر کارروائی بے شک نہ ہو لیکن ‘ولی عہد اور سعودی عرب کی ساکھ مزید خراب ہو گئی ہے‘۔