محسنِ اعظم

Muhammed PBUH

Muhammed PBUH

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
اہل مغرب حیران پریشان ہیں کہ شافع دو جہاں ۖ میں آخر ایسی کونسی خوبی تھی کہ مسلمان آپ ۖ کے خلاف کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے، جب بھی کبھی کسی نے رسول اقدس ۖ کی شان میں گستاخی کی تو کائنات کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، اِس احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جانتے ہیں آقائے دو جہاں ۖ جیسا مسیحا اعظم اِس دھرتی پر نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔

سرور کو نین ۖ کی سیرت مبارکہ کا جب بھی کوئی مطالعہ کر تا ہے تو دل و دماغ آپ ۖ کی تعظیم میں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ آپ ۖ کی مقدس زندگی کا مطالعہ کر تے ہوئے بے شمار ایسے واقعات نظر آتے ہیں۔ جب رحمتِ العالمین ۖ نے جان کے دشمن کو بھی معاف کیا پتھر مارنے والوں کو دعائوں سے نوازا بد خواہوں کو نیک خواہشوں کے پیغام بھیجے، زندگی لینے والوں سے محبت و شفقت فرمائی جب قریش مکہ نے آپ ۖ کو شہید کرنے کے منصوبے بنا ئے اورآپ ۖ کے سر کی قیمت لگا رکھی تھی، تو عثور بن حارث انعام کے لالچ میں آپ ۖ کو مارنے کی غرض سے آیا سرور کائنات ۖ مکہ سے باہر زمین پر آرام فرما رہے تھے اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا رکھی تھی دشمن نے آپ ۖ کو سوتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوا کہ آج میں (نعوذ باللہ) کامیاب ہو جائوں گا۔ کیونکہ آقاکے آس پاس کوئی محافظ یا غلام بھی نہیں تھا۔

سو آپ ۖ کو سوتے ہوئے شہید کرنا شیوہ مردانگی کے خلاف سمجھابا آواز مغرور لہجے میں آپ ۖ کو پکارا جگایا اور متکبر لہجے میں بولا اب میری تلوار سے کون تمہیں بچا سکتا ہے دشمن ہاتھ میں تلوار لیے آپ کے سر پر کھڑا ہو تو بڑے بڑوں کے دل دہل جاتے ہیں مگر سرتاج الانبیا ء ۖ نے بڑے اعتماد اور تحمل سے کہا ” میرا اللہ ” سید الانبیاء ۖ کے لب اقدس سے یہ جملہ اِس شان سے ادا ہوا کہ و عثور پر لرزا طار ی ہوگیا تلوار ہاتھوں سے زمین پر گر پڑی اور وہ تھر تھر کا نپنے لگا حادی دو جہان ۖ نے تلوار پکڑی اور فرمایا اب تم بتائو تم کو کون میرے وار سے بچائے گا وعثور کی آنکھوں میں شرمندگی اور التجا کے آنسو تھے محسنِ اعظم ۖ نے شفقت آمیز دلنواز لہجے میں فرمایا ” جا میں نے تجھے اللہ کے لیے معاف کیا ” محبوب خدا ۖ کے منہ مبارک سے یہ فرمانا تھا کہ وعثور کے منہ سے بے اختیار کلمہ توحید نکلا اور پھر جان لینے کا ارادہ کرکے آنے والا اپنا دل و دماغ اور زندگی آقائے دو جہاں ۖ کے قدموں میں نثار کر بیٹھا۔

فتح مکہ کے تا ریخی دن آقا پاک ۖ کا دریا ئے کرم پورے جوش پر تھا اور کناروں سے آبشاروں کی طرح ابل رہا تھا کیونکہ اُس دن کفا ر مکہ مکمل طور پر سرنگوں ہو چکے تھے اور خدا ئے بزرگ و برتر نے آقائے دو جہاں ۖ کو سر بلندی اور شان کی معراج پر پہنچا دیا تھا۔ اُس دن وہ لوگ بھی معافی کے پروانے لے گئے جو کر ہ ارض کے ظالم و جا بر سفاک ترین انسان تھے۔

Wrongdoing

Wrongdoing

ایسے ظلم اور زہریلے لوگ کہ جن کا عکس بھی کسی سمندر پر پڑ جاتا تو سمندر بھی زہر آلودہ ہو جاتا ایسے سیاہ کردار لوگ کہ اُن کے کر دار کی سیاہی کا ایک قطرہ بھی اگر چاند پر پڑ جاتا تو چاند کی روشنی مدہم پڑ جاتی انہی ظالم لوگوں میں ہبار بن الاسود بھی تھا۔ جس نے ساری عمر آقا ۖ کو تکلیف دی ایک بار آپ ۖ کی لا ڈلی بیٹی سیدہ زینب پر برچھی کا ایسا ظالمانہ وار کیا کہ سیدہ زینب کا حمل ضائع ہوگیا فتح مکہ کے دن یہ ظالم شخص بھی مجرموں کی صف میں کھڑا سزا کا منتظر تھا لیکن اِس کو بھی معافی کا پروانہ مل گیا اور کون بھول سکتا ہے ظالم کعب بن زہیر جو عرب کا نامور شاعر اور ادیب تھا۔ اُس کی شاعری اور تقریروں کا ایک ہی موضوع تھا پیارے آقا ۖ کی شان میں گستاخی’وہ خود بھی بکواس کرتا اور لوگوں کو بھی اکٹھا کرکے آقا ۖ کی شان میں گستاخی کرتا اور پھر فتح مکہ کے دن جب اُس ظالم کو گرفتار کرکے لایا گیا تو بہت سارے صحابہ کی رائے تھی، کہ اس ظالم کے سامنے کے دانت توڑ دئیے جائیں تاکہ صاف لہجے میں بات کرنے کے قابل نہ رہے مگر سراپا رحمت محسنِ اعظم ۖ نے فرمایا میرا پاک رب مجھے کسی انسان کا چہرہ بگاڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور پھر یہ ظالم بھی آپ ۖ کے دامن شفقت میں سما گیا اور کون بھولا ہوگا کہ آپ ۖ کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ کا قاتل وحشی بھی مجرموں کی صف میں منہ چھپائے کھڑا تھا۔

آپ ۖ کے جوش رحمت نے جوش مارا اور وہ بھی معافی پانے والوں میں شامل ہوگیا اُس دن معافی پانے والوں میں دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بن ابوجہل بھی تھا جب آپ ۖ نے اُس کو معاف کیا تو اہل مکہ حیران تھے۔ تا ریخ انسانی میں فتو حات کے ہزاروں واقعات ہیں ۔ لیکن جس عفو و درگزر کا مظا ہر ہ پیا رے آقا ۖ نے فتح مکہ کے دن کیا ایسی مثال ایک بھی نہیں ملتی ما لک دو جہاں ۖ کی زندگی کے درد ناک ترین واقعات میں سفر طائف بھی ہے اہل مکہ کے ناروا سلوک سے تنگ آکر سید الانبیاء ۖ نے جب اہل طائف کو خدا کا پیغام سنایا تو اہل طائف نے آپ ۖ کی توا ضع ہلڑ بازی آواز کسنے اور پتھروں کی بارش سے کی لہولہان پنڈلیوں سے خون آپ کے جوتوں میں جمع ہوتا گیا زخموں کی شدت سے آرام کے لیے بیٹھنے کی کوشش کرتے مگر لفنگے اوباش بازاری نوجوان پتھر مار کر آپ ۖ کو وہاں سے اٹھا دیتے کسی شریف آدمی نے آپ ۖ کو پانی کا پیالہ پیش کیا تو وہ بھی کسی نے پتھر مار کر توڑ دیا جب ظلم و ستم اور پتھروں کی بارش حد سے گزر گئی تو خالق ارض و سماء کو بھی جلال آگیا فرشتے کو حکم دیا کہ جائو میرا محبوب ۖ جو کہتا ہے، اُس پر فوری عمل کرو پہاڑ کا فرشتہ آپ ۖ کے حضور پیش ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ۖ اہل طائف کا ظالمانہ رویہ خدا کو بہت نا پسند آیا ہے۔

Mercy

Mercy

اگر آپ ۖ حکم کر یں تو جبل طائف اور جبل بوقیس کو آپس میں اِس شدت سے ملا دوں کہ پوری بستی سرمہ بن جائے یا کوئی بھی بد دعا کریں فوری قبول ہوگی اور اُس موقع پر بھی بوڑھے آسمان ہوائوں فضائوں نے حیرت سے کائنات انسانی کے مسیحا اعظم ۖ کو دیکھا آپ ۖ نے فرمایا میں بد دعا کرنے والا نہیں میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، اے میرے خدا اِس قوم کو شعور دے اِن کی آنکھوں پر پڑے جہالت کے پر دے ہٹا دے یہ میری بات سمجھ نہیں رہے زخموں سے چور ایسی بات محسنِ اعظم ۖ ہی کرسکتے ہیں، کسی اور انسان میں اتنا ظرف ہو ہی نہیں سکتا سرور دو جہاں ۖ کی شان کی کیا بات جو خدا کے محبوب ۖ ہوں جو وجہ تخلیق کائنات ہوں آپ ۖ کے دنیا فانی سے جانے کے بعد بھی شان کا یہ عالم ہے کہ آپ ۖ کی بارگا ہ اقدس میں بادشاہوں سلطانوں ولیوں جنید و بایزید کو بھی اونچی سانس لینے کی اجازت نہیں ہے‘ آپ ۖ کو کوئی نگاہ عشق و مستی سے دیکھ لے توآپ ۖ ہی اول و آخر دکھائی دیتے ہیں جن کے نعلین پاک نے غبار راہ کو فروغ وادی سینا عطا کر دیا

جن کی نسبت نے گدائے راہ کو شکو ہ قیصری بخشا جن کے دم سے اِس رنگ وبو کی دنیا میں آج تک رونق ہے، اور جن کا نام عظمت نوح بشر کی ضما نت ہے ایک مر تبہ ایک شخص نے عقیدت سے آپ ۖ کو ” اے ہما رے آقا کے فرزند ۖ ” اے ہم میں سے سب سے بہتر جیسے محترم القاب سے پکارا تو شافع دو جہاں ۖ اُس کے اِسطرح پکارنے پر چونک اُٹھے اور اُس کو روکتے ہوئے فرمایا اے لوگو پرہیزگاری اختیار کرو شیطان تمھیں گرا نہ دے میں عبداللہ کا بیٹا محمد ۖ ہو ں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ۖ ہوں مجھ کو خدا نے جو مرتبہ بخشاہے مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ تم مجھے اِس سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پکا رو فتح مکہ کے بعد جب آپ ۖ کی حکومت شمال میں اردن جنو ب میں یمن مشرق میں خلیج فارس اور مغرب میں بحیرہ احمر تک پہنچ چکی تھی، تو بھی آپ ۖ عاجزی و انکساری کا پیکر تھے ایک مرتبہ ایک بدو آپ ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کچھ عرض کرنے لگا جلال نبوت کی تاب نہ لاتے ہوئے بدو کے ہونٹ اور جسم تھر تھر کانپنے لگے زبان لڑکھڑا نے لگی اور الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکلنے لگے تو رحمت دو جہاں ۖ نے شفق ِ دلنواز تبسم سے فرمایا ” تم کھل کر بات کرو میں اُس ماں کا بیٹا ہوں جو کئی دن سوکھی کھجور کھا کر اور پانی پی کر گزارا کر تی تھی یہ تھے نسل انسانی کے سب سے بڑے محسنِ اعظم ۖ جنہوں نے غلاموں کو آزادی کے تاج پہنائے۔

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org

Mercy - order

Mercy – order