تحریر : شاہ بانو میر محرم کی فقید المثال حرمت قرآن پاک میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ ترجمہ “” بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اللہ کی کتاب میں 12 مہینے ہیں ان میں سے 4 حرمت والے ہیں “” محرم کی پہلی فضیلت یہاں سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کا شمار ان حرمت والے 4 میں سے1 مہینے میں سے ہے ذیقعد ذی الحج محرم رجب دنیا کی تشکیل کرتے ہوئے وقت کو اللہ پاک نے 12 مہینوں کی صورت کامیاب زمینی اور آسمانی نظام وضع کیاـ عام زبان میں ہم شمسی اور قمری سال کہتے ہیں ـ اسلامی مہینے قمری سال کہلاتے ہیں ـ جن کا کچھ دنوں کا شمسی مہینوں سے فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
زمانہ قدیم سے عربوں میں حد درجے جہالت کے کئی رواج تھے ـ جن میں بات بات پر لڑنا اور خون خرابہ کرنا ـ خون بہانا عام باتیں تھیں یہی وجہ تھی کہ یہ چار مہینے محفوظ سمجھے جاتے تھے ـ ان چار مہینوں کے علاوہ یہ لوگ سفر سے اجتناب برتتے تھے ـ باقی سال کے 8 مہینوں میں ان کی دوکانیں تجارت ہر قسم کا بیرونی لین دین صرف لوٹ مار کے خوف سے بند رہتا ـ مگر جونہی یہ چار مہینے شروع ہوتے ان کے سفری کارواں ہر سمت سے سامان تجارت لاتے لے جاتے دکھائی دیتے ـوہ جانتے تھے کہ ان مہینوں میں ان کا سفر اور سامان محفوظ ہے یہی وجہ ہے کہ انہی مہینوں کے اندر اندر کام مکمل کر کے یہ واپس گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔
ان 4 مہینوں کی تعظیم کافر مشرک منافقین سب ہی کرتے تھے ان مہینوں کا احترام اتنا تھا کہ اگر باپ کا قاتل سامنے آجاتا تو اسے بھی کچھ نہیں کہتے تھے حالانکہ اس جاہل قوم کا یہ حال تھا کہ بات بات پے لڑتے کسی لمحے کیا کر دیں کچھ نہں کہا جا سکتا تھا رجب کا مہینہ حرمت کا مہینہ اس لئے کہ اُس مہینے میں احرام باندھتے تھے۔
Muharram ul Haram
یہ جاہل قوم اسلام کی تعلیم سے پہلے ان مہینوں کا اس قدر احترام کرتی تھی اور آج ہم اور ہماری اولادیں ان مہینوں کی تقدیس اور اہمیت سے یکسر محروم ہیں ـ آج کبھی سنا کہ کہ کسی سیاسی سماجی رہنما نے یہ کہ کر معاملہ ختم کر دیا ہو کہ اس مہینے میں برا بھلا نہی کہ سکتا ـ آج امت مسلمہ علم حاصل کر کے اتنی جہالت پر آچکی کہ اس پیغام کو بھلا چکی ہے کہ مومن کا ایمان امن کا عنوان ہے آج اس ایمان کا حامل مسلمان دہشت گرد بن گیا کیونکہ وہ امن کا مطلب ہی فراموش کر چکا ہے۔
ذیقعد کے مہینے میں لوگ سفر کا ارادہ کرتے کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے یہ طریقہ چلا آ رہا تھا کہ سال میں یہی چار مہینے محفوظ سمجھے جاتے تھے اور ان کی اہمیت کی وجہ سے کبھی ان مہینوں میں دوران سفر کبھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا تھا ـ یکم محرم کے آغاز سے نیا سال اسلامی شروع ہو گیا ہے ۔ نئے سال پر ہمیں اپنا تجزیہ کرنا ہے کہ گزشتہ سال میں ہم سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں جو اب اس نئے سال وہ غلطیاں نہیں دہرانیں اور خود کو مزید بہتر کرنا ہے ـ ایک سال کے اختتام پر ہمیشہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اور نئی سوچ اور نئے ارادے مقرر کرنے چاہیے نئے سال کے لئے ـ اس عمل کی ضرورت آپﷺ کی اس حدیث سے ملتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا وہ شخص برباد ہو گیا جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں ہے۔
ہمیں ہر سال اُس عظیم قربانی کو از سر نو تازہ کرنا ہوگا اپنے کردار کو باطل سے دور کرنے کیلئے کہ جس میں حق کیلئے 72 قیمتی جانوں نے شہادت پائی اور ظالم کے سامنے باطل کے سامنے سر نہں جھکایا یاد کرنا ہوگا کہ محرم میں ایک سفاک بھٹکے ہوئےانسان کے غرور نے مظلوم انسانیت کو کیسے تڑپا کر ترسا کر رُلا کر جام شہادت پینے پر مجبور کیا۔
رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ایک مظلوم گھرانے کی بے بسی اور لاچاری پر کہ کیسے وہ اتنا صبر کر گئے کیا حوصلے تھے اُن کے؟ آج ہم انہی کے نام لیوا اور ہمارے کمزور رویے ہمیں کیسے ناکام بنا کر دکھا رہے ہیں ـ آج بھی ہر باشعور انسان یزیدی رویے سے شدید نفرت کرتا ہے۔
Muhammad PBUH
محرم نے در حقیقت انسانی جان کی اہمیت کو پہچان دی اور ان کی قربانی کو قیامت تک زندہ و جاوداں کر دیا ـ اور دوسری جانب یزیدیت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہر صورت میں عنوان میں انداز میں زلت و رسوائی دے دی ـ اگر ہم جان لیں کہ انسانی جان (حسینؓ) کی اللہ پاک کے ہاں کیا قیمت ہے تو ہر (یزید) یعنی ظلم کرنے والا ضرور اپنا ہاتھ روکے گا۔
حرمت انسانیت ملاحذہ کیجیۓ ایک بارآپﷺ طواف کعبہ کر رہے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا اے کعبہ تو کتنا پاکیزہ ہے تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے تو کس قدر عظیم ہے تیرا احترام کتنا عظیم ہے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے اللہ کے نزدیک ایک مومن کی حرمت تیری حرمت سے بڑھ کر ہے ایک اور حدیث کچھ یوں بیان کی گئی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نےکعبہ کی1 حرمت بیان کی ہے اور مومن کی 3حرمتیں بیان کی ہیں خون مال برا گمان حرام کیا
محرم کے اس حرمت والے اسلامی سال کے پہلے مہینے میں حضرت حسین ؓ کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آئیے ہم سب عہد کریں کہ کم سے کم ان 4 حرمت کے مہینوں میں ایک دوسرے کے خون بہانے مال سے اور ایک دوسرے کیلیۓ بد گمانی سے بچیں گے اور دوسروں کے بارے میں گمان اچھا رکھیں گے اور غیبت چغلی برائی سے بچیں گے۔
اسلامی سال کی تکمیل بھی قربانی کے فلسفے پر ہے اور ابتداء بھی دنیائے اسلام کی المناک شہادتوں کے آغاز سے ہے۔ محرم میں روزے رکھنے کی تاریخی سند موجود ہے اس لئے روزے ضرور رکھیں ـ محرم کے 2 روزوں کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ مدینہ میں آپ ﷺ جب گئے دیکھا کہ یہودی محرم میں 10 تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں آپﷺ نے پوچھا کہ یہ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے؟ پتہ چلا کہ حضرت موسیٰ کی قوم کو اللہ پاک نے دریاۓ نیل سے بحفاظت پار اتارا تھا اور فرعون کو اسکی فوج کے ساتھ ڈبو دیا تھا ؛ یہودی یوم نجات کے نام پر شکرانے کا روزہ رکھتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو ہم تم سے زیادہ موسیٰ ؑ سے محبت رکھتے ہیں یہودیوں سے مماثلت سے بچنے کیلئے دس کے ساتھ 9 کا روزہ یا دس کے ساتھ 11 محرم کا روزہ رکھیں گے یہ روزے آپ کے سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے ـ جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اُس وقت تک یہ روزے فرض تھے۔
ایک دوسرے کے ساتھ حرمت کے مہینے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہر سطح پر محاذ آرائی بند کر کے امن و آشتی کے ساتھ عبادت اور ذکر کے ساتھ اس مہینے کو گزاریں ۔ محرم کو محترم اللہ پاک نے اس لئے بھی قرار دیا کہ اسی مہینے نواسہ رسولﷺ حضرت حسین کو ان کے اہل خانہ کو یزید نے ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے بھوکا پیاسا شہید کر دیاـ
شہادت حسین اسلام کا المناک ترین باب ہے جس پر سوچتے ہی ان کی مظلومیت جزبہ ایثار اور حق کیلئے جان و مال کی قربانی ہر آنکھ کو اشکبار کر دیتی ہے ـ حضرت حسین نے باطل کے آگے سر نہیں جھکایا کٹا دیا اور یہی عظمت تھی اس نانا کے دین کی جس کیلیۓ حسین نے قدم پیچھے نہیں ہٹائے بلکہ جرآت و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت پائی ـ محرم ہر لحاظ سے اہم اور محترم مہینہ ہے جس کا احترام ہر عاقل و بالغ ہر ذی شعور مسلمان پر فرض ہے ـ سوچ کی وسعت اتنی ہی بلند پرواز کرے گی جتنی زیادہ محرم کو تعظیم اور تکریم دے گی۔