محرم الحرام کا چاند نکلتے ہی نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور کیسے نہ ہو پوری دنیا کیلئے نصیحت ہے حسین! تقریباً ساڑھے چودہ سو سال گذر جانے کے بعدبھی شہادت امام حسین کا تذکرہ زندہ ہے۔اس کی عالم گیر شہرت اور تذکرہ میں آج تک کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ یہ اور زیادہ پھیلتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ حسینیت اور یزیدیت ہر دور اور ہر طبقہ میں فتنہ و فساد اور باطل کی علامت بن گئی ہے۔
امامِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک عراق میں واقع ہے۔ اور صرف محرم الحرام ہی کیا یہاں تو ہر روز ، ہر لمحہ ہی زائرین کا جمِّ غفیر ہوتا ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ حسینیت کی تبلیغ عام ہو رہی ہے۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ آج تو انگریز بھی اس واقعہ پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس واقعے کو دنیا کا عظیم معرکہ قرار دیتے ہیں۔ آخر کیوں نہ مانیں انہیں کیونکہ وہ سید الشہداء ہیں۔ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
امام عالی مقام سیّدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت ہمیں ہمہ وقت اور ہر نئے سال میں دو طرح کا پیغام دیتی ہے۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کاپیغامِ اوّل ”عملی جدوجہد” کا ہے۔ محبت حسین، تعلق حسین اور نسبت ِحسین کو محض رسم کے طور پر نہ سمجھا جائے اور نہ رہنے دیاجائے بلکہ اسے عمل، حال اورحقیقت کے تناظر میں تبدیل کر دیا جائے۔ اسے حقیقی زندگی کے طور پر اپنایا جائے کہ یہی تعلق اور نسبت ہمارا نصب العین ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اسوئہ حسینی اور رسم شبیری پر عمل کرتے رہیں۔
حسینیت کا تقاضا ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے، تم حسینی لشکر کے سپاہی بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو، خواہ اس کیلئے تمہیں اپنا مال ومتاع، اپنی جان اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑ جائیں۔……. بہ قولِ شاعر غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین، ابتداء ہے اسماعیل!
امتِ مسلمہ میں اتحاد و اتفاق، وحدت و یگانگت، بھائی چارہ و مساوات اور یکجہتی کا تصور پیدا ہو…..امت ِمسلمہ میں اتحاد و اتفاق، وحدت و یگانگت، بھائی چارہ و مساوات اور یک جہتی کا تصور پیدا کرنے اور اسے تباہی و بربادی اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم آپس کے اختلافات کو اعتدال پر رکھیں۔
قمری سال کا آغاز ماہِ محرم الحرام سے اور اختتام ماہِ ذوالحجہ پر ہوتا ہے۔ 10 محرم الحرام کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت و قربانی اور 10 ذوالحجہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام ابتداء سے لے کرانتہاء تک قربانیوں کا نام ہے، گویا کہ ایک مسلمان کی تمام زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے۔
ذوالحجہ کا مہینہ ہمارے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشقِ الہٰی کابے پناہ جذبہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آرزوئے شہادت کا نقشہ پیش کرتا ہے اور محرم الحرام کا مہینہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے عملی واقعہ کی جانب دعوت دیتا ہے۔ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کوحضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر اپنا سر اقدس چھری کے نیچے رکھ دیتے ہیں مگر یہ سرتن سے جداہونے سے پہلے ہی بارگاہِ خداوندی میں درجہ قبولیتپا لیتا ہے….اور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے جگر گوشوں، بھائیوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور اپنے اصحاب کی گردنیں دین حق کی سربلندی، اعلائِ کلمتہ الحق، ظلم وستم کے مٹانے کیلئے اور ناموسِ اسلام اور حق و صداقت کی خاطر اپنے مالک و مولا کی بارگاہ میں پذیرائی کیلئے کٹا دیتے ہیں… یہ تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی ہے، جوماہِ محرم الحرام میں دشتِ کربلا میں پیش آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے امت مسلمہ کیلئے تاقیام قیامت اسلام کے شعائر میں داخل فرما دیا ہے۔
Hazrat Imam Hussain
معرکہ کربلا اور شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے مقاصدکی عظمت کے لحاظ سے تاریخ کی سب سے بڑی شہادت و قربانی ہے۔ معرکہ کربلا نے اسلامی تاریخ کے دامن کو…ایثاروقربانی، حق و صداقت، 10 محرم الحرام کو فخر انسانیت اور جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس لئے شہید کیا گیا کہ اس نے باطل کے سامنے حق و صداقت کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ پوری انسانیت کے لئے یہ عظیم سبق چھوڑا کہ اگر حق و صداقت کی خاطر اپنے پورے کنبے سمیت قربانی وشہادت دینی پڑے توبھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ شہادتِ امام حسین! حق گوئی وراست گوئی اور تسلیم و رضا کی لازوال داستان ہے۔ وہ ایک ایسا چراغ ہے کہ مظلوم جب حق و صداقت کی پاسبانی کیلئے باطل کے نرغے میں گھر جائے تویہی راہنمائی کرتا ہے۔ جب سیم وزرکی جھلکیاں ایمان وایقان کو کمزور کرنے لگتی ہیں تو مثالِ حسین کی یاداسے حوصلہ عطا کرتی ہے۔ جب ایک طرف دنیوی کامیابی و کامرانی ہو اور دولت و اقتدار ہوا ور دوسری طرف وفائے حق ہو تو فاقہ مستی میں بھی حرص و ہواکابت پاش پاش کر دیا جاتا ہے، یہی تقلید حسین ہے۔
یوم شہادت امام حسین!اپنے اندرہمارے لئے ایساعظیم اور اعلیٰ وارفع سبق لئے ہوئے ہے کہ جس میں معراج انسانیت مضمر ہے۔ جس میں حق پرستی کے عزائم نظر آتے ہیں۔ بُردبادی، اثبات و استقامت اور صبر و رضا کی اعلیٰ اقدار کا درس ملتا ہے۔ ان ہی اقدار کو پھر سے تازہ کرنے کیلئے یوم امام حسین منایا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا! اس قدر کرب وبلا اور مصائب و تکالیف سے پُر ہے کہ اسے سن کر پتھر سے پتھر دل بھی موم ہو کر بے اختیار رو پڑتا ہے۔ امام عالی مقام! اس قدر پختہ عزائم رکھتے تھے کہ انہوں نے اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور اصحاب سمیت اپنی قربانی دے دی، مگر باطل کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔
اہل ایمان کے لئے شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا دوسرا پیغام”امن وسلامتی”کاپیغام ہے۔کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا مہینہ”محرم الحرام”آتا ہے توپورے پاکستان میں فتنہ و فسادات کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات سر عام گولیاں چلنے لگتی ہیں، قتل وغارت گری، دہشت گردی اور جنگ و فساد کی حالت بن جاتی ہے اور اس ماہ ِمقدس میں مسلمان قوم دوسروں کیلئے جنگ ہنسائی اور طعنہ زنی کا نشانہ بن جاتی ہے۔
موجودہ دور میں یہ بات بڑی توجہ طلب اور خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے آپس کے اختلافات کو کس طرح اعتدال پر رکھا جائے تا کہ نظم وضبط، جرأت و بہادری، شجاعت وبسالت، حرمت فکر، عزم و ہمت، ہم دردی و غمگساری اور صبر و رضا کا وسیع مفہوم عطاء کیا اور اس دولت سے دامنِ اسلام کو بھر دیا ہے اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور انشاء اللہ تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔ یہ ایک ایسی روشن مشعل ہے جو انقلابی انسانوں کیلئے راستہ کو روشن بنا رہی ہے اور تخت و تاج پر قائم ہونے والی بنیادوں کو منہدم کر رہی ہے۔ یہی انقلاب!انقلابیوں کیلئے شمع ہدایت ہے اور یہی انقلاب ! اپنے حق سے دفاع کرنے والوں کیلئے آخری امید اور سہارا ہے۔ واقعہ کربلا! کل بھی تاریخ کی ایک حقیقت تھی اور آج بھی ایک اٹل حقیقت ہے، نام حسین قلب و دماغ اور ضمیر میں زندہ ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی وشہادت سے اپنے عظیم ناناجان، اپنے والد محترم، اپنی والدئہ ماجدہ اورسب سے بڑھ کر اسلام کا نام بلند کر دیا۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آپ کی عظیم زندگی سے سبق سیکھے اور آپ کی ذات سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرے۔
قتل حسین اصل میںمرگِ یزیدہے اسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلاکے بعد!
معرکہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں گزشتہ چودہ سو سالوں میں لاتعداد لوگوں نے اپنی آراء اور اپنی تحقیق کا اظہار کیا ہے لیکن یہ موضوع اب بھی تشنہ طلب اور تشنہ تحقیق ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا ہر فکر میں ہر بار ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے لیکن قلم میں تاب و طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنا کچھ بیان کر سکے۔
تاریخ نے لکھا ہے بہت، ذکرِ کربلا جس طرح لکھنا چاہئے اب تک لکھا نہیں گیا!
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ظاہری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے لیکن اہل باطن کے سامنے آج بھی وہ رونق افروز ہیں۔ آج پھر نگاہوں اور گم راہیوں کے اندھیروں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے عظیم کردار اور پاکیزہ سیرت کے روشن چراغ جلانے کی انتہائی ضرورت ہے۔ اس دورِ پر فتن میں مسلمانوں کے عروج کیلئے ایک بار پھر”ضربِ حسینی” کی ضرورت ہے۔