تحریر : علامہ صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی اے میدانِ کربلا کے شہیدو اور پاکیزہ و مُصفیٰ گھرانے کے مُطہر و مُقدس نفوسو:میں تمہاری عظمت کو سلام کن الفاظ و حروف میں کہوں :میں تمہاری غیرت و حمیت اور داستان ِ عظیم کو کس طرح خراجِ تحسین پیش کروں ؟میرے دامن میں وہ الفاظ نہیں اور نہ ہی میرے منہ میں وہ زبان ہے جو اِ ن پاکیزہ ہستیوں کی ثناء کر سکے ۔۔۔۔۔۔تم نے جس جرات اور جواں مردی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اورناموسِ رسالت ۖپر دیوانہ وار جانیں نچھاور کی ہیں اس کی قدر و اہمیت سوائے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖ کے اور کوئی نہیں جان سکتا دراصل کر بلا کا درس ہی یذیدی افکار کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہے جو قومیں ”درسِ کربلا ” کو بھلا دیتی ہیں وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہتی ہیں اور خجالت و رسوائی اُن کا مقدر بن جاتی ہے آج قوم کے حصوں بخروں میں تقسیم کا سبب ہی یہی ہے کہ وہ امام عا لی ٰ مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام سے رو گردانی کر رہی ہے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو گئے اس شہیدِ اعظم کا سر اقدس ابنِ زیاد کے سامنے ایک ڈھال پر پڑا ہے وہ اپنی اس بالکل عارضی اور وقتی فتح کے نشہ میں بد مست ہے انتہائی رعونت اور نخوت سے اُٹھ کر اپنی چھڑی سے دندان مبارک کو چھو رہا ہے اس بد بخت کو کیا معلوم کہ یہ وہی سر اقدس ہے جو رسول اللہ ۖکی گود میں رہا یہ وہی مبارک دہن ہے جو بوسہ گاہِ رسول ۖ بنا ۔۔۔۔۔اے بد بخت انسان : اگر تجھے معلوم نہیں تو اپنے پاس بیٹھے زید بن ارقم سے پوچھ لے ،دیکھ اس کی آنکھیں اشکبار ہیں کہ ان آنکھوں نے جناب ِ رسول رحمت ۖ کو دیکھا وہ ان ہونٹوں کو بوسہ دیا کرتے تھے لیکن تجھے کیا ؟تو تو خود بدی کی ایک زندہ علامت ہے ، بدی کو نیکی سے کیا سرو کار ۔۔۔؟تیری اپنی ایک تاریخ ہے جس کی ترتیب و تکمیل خود ابلیس کے ہاتھوں ہوئی تو اسی کی تاریخ کا کردار ہے لیکن یاد رکھ ۔۔۔۔۔۔۔تو امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر تو قادر ہو سکتا ہے حسینیت کو ختم کرنا تیرے بس کا روگ نہیں ہے ،امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون میں نہائے ریت کے ذرات ہوائوں کے دوش پر سوار ہو کر اکنافِ عالم میں بکھر چکے ہیں عنقریب وہ ایسے طو فان بن کر اُٹھیں گے جس میں تو اور تجھ جیسے ہر دور میں اُٹھنے والے ابنِ زیاد اور یزید بے حیثیت تنکوں کی طرح اُڑتے پھریں گے۔
اے بد بخت انسان تو نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو محض ایک شخص سمجھ کر شہید کر ڈالا ، لیکن یاد رکھ ۔۔۔۔۔۔۔حسین ایک شخصیت ہی کا نام نہیں ،امام حسین ایک پیغام ہے آفاقی پیغام ۔۔۔۔ابدی پیغام ۔۔۔۔کائناتی پیغام ،جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو درسِ عمل اور ولولہ ء شوق عطا کرتا رہے گا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مزہب ہے جو ہمیشہ طاغوتی طاقتوں سے ٹکرانا سکھاتا رہے گا ۔۔۔۔۔حسین رضی اللہ عنہ ایک سیاست کا نام ہے جس کے نزدیک کسی قیمت پر بھی اُصولوں پر سودے بازی نہیں ہو سکتی ،حسین رضی اللہ عنہ ایک ملت ہے جس کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی اور کربلا کے میدان میں اپنے نکتہ ء عروج کو پہنچی حسین صدائے انقلاب ہے جو ہر دور میں بلند ہوتی رہے گی حسین ایک تہذیب کا نام ہے اور حسین شرافت کا ایک معیار ہے ۔۔۔۔۔اے قُدسی صفت فرشتو :سلام بھیجو اس شرفِ آدم پر جس نے پھر سے آدم کی عظمت کا راز تمہارے سامنے پیش کیا ۔۔۔۔۔آسمان پر جگمگاتے ستارو:ان گنت سلام بھیجو اس عظیم المرتبت ہستی پر جس کی نیکیاں تم سے زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔کوہسارو:سلام بھیجو اس قتیلِ صدق و وفا پر جس کی استقامت تم سے بڑھ کر ہے اور اے کائنات پر بسنے والے انسانو :سلام بھیجو اپنے اس عظیم مُحسن پر جس نے اپنے خون سے تمہارے لیے عظمت کی شاہرائوں پر ہدایت کے چراغ جلائے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یزید کی بیعت ِ خلافت سے انکار کرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں تھی جن میں اکابر صحابہ ، فر زندانِ صحابہ ، جلیل القدر تابعین اور صالحین موجود تھے مگر میدانِ عمل میں قول کو ارادہ و نیت و عمل سے مزین کر کے استحکام و دوام بخشنے والا ایک ہی شہزادہ نکلا اور وہ ہیں شہزادہ کونین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔کائنات عالم نے صرف ایک شہزادے کو ”کونین کا شہزادہ ” تسلیم کیا جن کے فراق میں رونا میرے دل کی طہارت کا وہ وضو ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا ، آنسو جب خشک ہو جاتے ہیں جگر خون کے آنسو بہانے لگتا ہے ۔۔۔۔بندے بندوں سے لڑا کرتے ہیں اور مرا کرتے ہیں ایسی توہین اور ایسی بے ادبی ۔۔۔۔۔۔۔جسدِ اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پرزے پرزے کرنا کبھی بھول سکتا ہے ۔۔۔؟ ہر گز نہیں ، یہ تصور ہمیشہ قائم رہتا ہے عشق کبھی اسے معاف نہیں کر سکتا اور نہ ہی کبھی آنکھوں سے اُوجھل ہونے دیتا ہے عشق جب اپنے امام کے حضور میں نیاز مندانہ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شامِ غریباں کے بے مثل منظر پر حاضر ہوا ، کہرام مچ گیا ، زمین کی طنابیں ٹوٹنے لگیں ، ہوش و حواس کھو بیٹھا ، ا! اس مقدس اور تاریخ کے انوکھے یوم ، یوم ِ عاشورہ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم نے محبتوں کو فروغ دینا ہے۔
امن کی مالا جپنا ہے ، اخوت کا پر چار کرنا ہے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے سالہا سال سے کشور حسین ، مرکز یقین ،پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک رُحجان چلا آ رہا ہے اور ہر بار یہ رُحجان پُختہ تر ہو تا جا رہا ہے کہ جونہی محر م الحرام کا چاند طلوع ہوتا ہے تووطن عزیز میں ایک غیر معمولی اور ہنگا می نوعیت کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس طرح بجٹ کی آ مد سے قبل اشیاء کی قلت ، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں اس طرح محر م الحرام کے آ غاز میں مذہبی فضا میں تنائو اور کھچا ئو سا آ جاتا ہے حکومت کی طرف سے بعض علماء کی زبان بندی ، بعض علماء پر دوسرے علاقوں میں جا نے کی ممانعت ، دفعہ 144کا نفاذ اور انتظامیہ کو الرٹ کر دینے کے احکا مات جا ری کر دئیے جاتے ہیں امن کمیٹیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں ان کے اجلاسز کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور سنی شیعہ فرقوں کے درمیان دھمکی آ میز بیا نات کی یلغار ہو جاتی ہے یہ رُحجان کم از کم ایک سادہ اور عام مسلمان کے لیے نا قابل فہم اور انتہائی تعجب انگیز ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب یا طو فان آ رہا ہے جس کی پیش بندی کے یہ سارے منصوبے اور سا مان ہو رہے ہیں اگر بند نہ باندھے گئے ، پُشتے مضبوط نہ کیے گئے ، کٹا ئو کے انتظا مات نہ کیے گئے اور بہائو کے رُخ نہ متعین کیے گئے تو خدانخواستہ بڑی تبا ہی مچ سکتی ہے آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی سادہ سی وجہ فرقہ واریت ہے جس کے زہر نے ذہنوں کو آ لودہ اور جس کی نفرت نے دلوں کو کبیدہ کر رکھا ہے اور وہ ایام اور مواقع جو کسی قوم کے لیے ذریعہ اتحاد ، سر مایہ افتخار اور طرہ امتیاز ہوتے ہیں ، اُلٹا موجب افتراق ، باعث ِ فساد اور وجہ نزع بن جاتے ہیں حالانکہ کوئی با دنیٰ تعمق دیکھے تو عا شورہ محرم الحرام تاریخ اسلام کا ایک درد ناک باب ہے اور غم آگیں ورق !دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کے موقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہو جا تا ہے اور ہر فرد دکھ درد میں شریک ہو تا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحہ الم میں پہلے سے بھی زیادہ اختلاف رونما ہو جا تا ہے اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جا تی ہیں اس نا خوشگوار کیفیت کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں جن کا گہرا علمی اور تاریخی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاہم با دی النظر میں اس نفرت کو ختم کرنے کے مندر جہ ذیل طریقے ہیں۔
1۔ہمارے فرقہ وارانہ ذوق نے ہماری ملی اور تاریخی شخصیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم ان شخصیات کے آ فاقی کردار کو اپنے گروہی دائرے میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے در میان ن شخصیات کے حوالے سے ایک طرح کی کشمکش اُبھر آ تی ہے انہی میں ایک مظلوم ہستی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے حا لانکہ سانحہ کر بلا محض ایک واقعہ نہیں تاریخ کا مستقل اور مسلسل کردار ہے جب تک نوع ِ انسانی کے درمیان حق اور باطل ، خیر و شر ظالم اور مظلوم کی آ ویزش رہے گی سانحہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک قومی علامت کے طور پر انسا نیت کو حق اور خیر کے لیے ظلم کے خلاف جدو جہد کا درس دیتے رہیں گے ، مگر بد قسمتی سے ہم نے اس واقعہ کو شیعہ ، سُنی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے سب سے پہلے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تب مفاہمت کی فضا پیدا ہو گی ۔
2۔ایک اُلجھن یہ بھی ہے کہ ہم غمِ حسین رضی اللہ عنہ کا اظہار کم کرتے اور اسے اپنے مسلک کا شعار زیادہ بناتے ہیں چنانچہ اس ذہنیت کے نتیجے میں اس دوران تصادم کے کئی مراحل آ جا تے ہیں پھر مسئلہ کر بلا کا نہیں رہتا اپنے دھڑے کی بقا اور انا کا ہو جا تا ہے ظاہر ہے جہاں ان کا ٹکرائو ہو گا وہاں سے خیر اور محبت کیسے بر آ مد ہو گی ؟ 3۔اس سلسلے میں ایک سبب اور بھی قابل توجہ ہے کہ ہم بظاہر امام حسین رضی اللہ عنہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جلسہ اور جلوس کا اہتمام کرتے ہیں مگر دراصل بلاتے ان لوگوں کو ہیں جن کی اپنی بقاء اور گزراں اسوہ حسینی سے وابستہ نہیں بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر تفرقے سے منسلک ہو تی ہے پیشہ ور ذاکر اور فرقہ پرست واعظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور قربانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں گو یا انہوں نے یہ سب کچھ اسلام کی با دستی اور وحدت ملی کو قائم رکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی ایک گروہ کی سر بلندی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے قربانی دی ، حالانکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ جہاد کسی فقہی ، فروعی اور جزئی مسئلے کے لیے نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے خون سے خلافت راشدہ اوملوکیت کے در میان حد فاصل کھینچ دی اگر ایسا نہ ہوتا تو اُمت کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جاتا کہ اسلام کا اصل سر چشمہ مسجد نبوی ہے یا شام کے محلات !شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے اُمت کو فکری یکسوئی عطا کر کے ذہنی انتشار سے بچا لیا ، چنانچہ آج تک حکمرانوں نے عوام کوبے شمار دھوکے دئیے اور لوگوں نے دھوکے کھائے مگر اسلام کے مثالی نظام پر دو آ راء نہیں ہیں اور کوئی حکمران اپنی ملوکیت ، مو روثیت اور آ مریت کو خلافت راشدہ کا متبادل نہ تو ثابت کر سکا اور نہ عوام سے منوا سکا ، گو یا عاشورہ محرم الحرام اُمت کی وحدت رائے کو قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ، مگر ہماری گروہی عصبیت نے اس کی قدر نہ جانی۔
4۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بد اعما لیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی نا روا جسارت کرتے ہوئے اصحاب ِ نبی ۖ، اور اہل بیتِ رسول ۖکو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے حالانکہ یہ حریف نہیں ایک دوسرے کے جگری حلیف ہیں ، آلِ رسول ۖ سے اظہار عقیدت کا مطلب اصحابِ نبی ۖ سے گریز نہیں اور اصحابِ نبی ۖ کا احترام آلِ نبی کے احترام کے منافی نہیں لیکن ہر چیز کے اظہار کا ایک موقع ہو تا ہے اور کسی چیز کو اس کے اصل محل اور موقع سے ہٹا دینے کو عربی میں ظلم کہتے ہیں اور ہم برابر اس ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں جس قوم کے ہاتھ میں میزانِ عدل نہ رہے قدرت اس قوم کی معاشرت کو اعتدال سے محروم کر دیتی ہے اور اس محرومی نے ہمیں ایک دوسرے کی بات سُننے اور جذ بات سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
5۔آ خر میں ایک بنیادی سبب کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ مختلف مسلک اور مشرب اسلام کی منشاء کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے وجود میں آئے مگر ہم نے ان مسالک اور مکاتب کو ذریعہ نہیں اصل سمجھ لیا ہے اور درمیان سے اسلام کا جوہری رشتہ کمزور پڑ گیا ہے ، گروہی شناخت نے اسلام کے آ فاقی تعارف پر غلبہ پا لیا ہے اور ہم نے اس غلطی کو ماننے کی بجائے بڑی شخصیات کی آ ڑ میں اور بھاری بھر کم اصطلاحوں کے پردے میں اور مقدس نا موں کے دامن میں چھپا کر اس کو غلطی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے عین اسلام اور حق سمجھ لیا ہے جس کے منفی اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے اور زہر ناک ہوتے جا رہے ہیں قومیتی ،لسانی ، صو بائی اور علاقائی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی منافرت نے ہمارا ملی وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے لیے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر از سرِ غور کرنا پڑے گا۔
عاشورہ محرم الحرام ایسے ایام در حقیقت ہمیں غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اصول اور فروع کے در میان فرق کیا جائے دین اور فقوں کی صحیح نوعیت سمجھی جائے ملی مفاد اور گروہی مفاد کے تقدم اور تاخیر کا ادراک حاصل کیا جائے اہم اور غیر اہم با توں کے درمیان حد قائم کی جائے اور ہر مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں رکھ کر فیصلہ کرنے اور رویہ اپنا نے کی شعوری کوشش کی جائے یہ وہ مختصر سی باتیں ہیں اگر دل و دماغ انہیں قبول کر لیں تو محرم الحرام نہ صرف امن کے ساتھ گزر سکتا ہے بلکہ اُمت کے لیے امن کی بنیاد بن سکتا ہے ، لہذا آئیے ! اس مقدس اور تاریخ کے انوکھے یوم ، یوم ِ عاشورہ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم نے محبتوں کو فروغ دینا ہے ، امن کی مالا جپنا ہے ، اخوت کا پر چار کرنا ہے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
Nouman Qadir
تحریر : علامہ صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی چیئر مین ایوانِ اتحاد پاکستان ، خطیب مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف اعوان ٹائون لاہور 03314403420