دس محرم، یوم شہادت امام عالی مقام حضرت امام حسین ،اہل بیت کے ساتھ محبت کرنے والوں کی آنکھیں نم کرنے والی تاریخ کاایک ایساباب جس کی مثال کائنات میں دوسری نہیں ہو سکتی، تاریخ شاہد ہے کہ لوگوں نے خداہونے کے جھوٹے دعوے کئے،جھوٹی نبوت کے دعوداربہت آئے پرآج تک کسی میں بھی امام حسین ہونے کاجھوٹادعوہ کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوئی، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجةالوداع کے موقع پر رسول اللہۖ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خم نامی چشمے پر خطبہ ارشاد فرمایا،آپ ۖنے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کی پھر فرمایا،سنو اے لوگو قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد (ملک الموت ) میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت قبول کرلوں(یعنی میں دنیاسے پردہ کرجائوں )تمہارے پاس دوبھاری چیزیں(نہایت عظیم،اہم اور فائدہ مندچیزیں) چھوڑرہا ہوں،پہلی چیز کتاب الٰہی ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے ،ا س لئے تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب(قرآن مجید)کے مطابق زندگی گزارنے کاحکم فرمایا، پھرتین بار فرمایا میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دہانی کراتا ہوں،میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں۔
میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں،رسول اللہ ۖ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے نزدیک اللہ کے رسول ۖ کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا میرے اپنے اہل قربت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔اورپھرچشم عالم نے وہ دل خراش منظربھی دیکھاجب رسول اللہ ۖکے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین کو پیاروں سمیت میدان کربلامیں شہیدکیاگیا،امام عالی مقام سیّد امام حسین کی ولادت باسعادت مبارک5شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، رسول اللہ ۖ نے آپ کے کان میں اذان فرمائی (مستدرک حاکم) منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالااوراُن کیلئے دعا فرمائی، آپۖ نے ساتویں دن اپنے نواسے کا نام حسین رکھا، عقیقہ کیا ،سر کے بال منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی،حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا جبرائیل نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد (ارض طف) میں شہید کیا جائے گا۔
جبرائیل نے مجھے اس مقام کی مٹی لاکر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (حسین ) کی شہادت گاہ بنے گی(طبرانی) ایک روایت کے مطابق ایک بار رسول اللہۖ نے سیّدناامام حسین کے رونے کی آواز سنی تو ان کی والدہ سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حسین کے رونے کی آواز مجھے غمگین کرتی ہے(طبرانی)سیّدنا امام حسین ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے، راستے میں غریب عرب دیہاتیوں کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے کہا فرزند رسول ۖہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے، آپ گھوڑے سے اُترے اوراُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس موقع پر فرمایا اللہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،سیّدناامام حسیننے ان غرباء کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی،معاویہ نے خلفائے راشدین کے برعکس خلافت کو وراثت بنا دیا اور اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بنالیا اور لوگوں کو 49 ہجری میں یزید کی بیعت کے لیے بلایا، مسلمانوں نے اس فیصلے کو ناپسند کیا اور سخت اختلاف کا اظہار کیا، لوگوں کو یزید کے مشاغل کا علم تھا،ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اگرچہ یزید میں سخاوت،مروت،فصاحت بیانی اور شعر گوئی جیسی خوبیاں بھی تھیں مگر وہ شراب نوشی کرتا،ناچ گانے میں دلچسپی لیتا،اس نے اپنے محل میں ناچ گانے والیاں اور کتے رکھے ہوئے تھے اس کے بعض اعمال فاسقانہ تھے(البدایہ و النہایہ) حضرت امام حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کیا،یزید نے حضرت امام حسین پر بیعت کے لیے دبائو ڈالا، آپ نے دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
آپ نے جو عزم اختیار کیا اس پر ثابت قدم رہے اورمکہ تشریف لے گئے،حضرت امام حسین کے نام عراق سے سینکڑوں خطوط آئے جن میں تحریر تھا کہ آپ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہیں آپ جلد عراق آجائیں تاکہ لوگ آپ سے بیعت لیں،حضرت امام عالی مقام امام حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے عراق بھیجا، کوفہ کے لوگ مسلم بن عقیل کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آئے اور قسم کھائی کہ حضرت امام حسین کوفہ تشریف لے آئیں تو وہ دل و جان سے آپ کی مدد کریں گے، ایک روایت کے مطابق اس موقع پر 18 ہزار لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی، مسلم بن عقیل نے حضرت امام حسین کو خط لکھا کہ حالات سازگارہیں،آپ کوفہ تشریف لے آئیں،خط ملنے کے بعد حضرت امام حسین کوفہ روانہ ہوئے،یزید نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو معزول کردیا کیونکہ وہ حضرت امام حسین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، عبداللہ ابن زیاد سمیّہ کو کوفے کا گورنر مقرر کیا گیا(البدایہ و النہایہ) ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت امام حسین کے پاس بھیجا اور ان کو یزید کی بیعت کا مشورہ دیا، حضرت امام حسین نے فرمایا کہ مجھے واپس جانے دویایزید کے پاس لے چلو تاکہ اس سے مکالمہ کروں،دونوں شرطیں منظور نہ ہوں تو ترکوں کی جانب جانے دو تاکہ ان کے خلاف جہاد کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کروں۔
حضرت امام حسین کا پیغام ابن زیاد کو پہنچایا گیااس نے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے بعد تینوں شرطیں مسترد کردیں اور بیعت کا مطالبہ کیا ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حضرت امام حسیناور ان کے ساتھیوں کو پانی لینے سے روک دیا جائے(البدایہ و النہایہ) حضرت امام حسین نے جب دیکھا کہ وہ محاصرے میں آگئے ہیں اور ابن زیاد کے ارادے درست نہیں ہیں تو آپ نے نویں محرم کو چراغ گل کردیے اور خطبہ دیا اور اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء سے کہا کہ یزید کو صرف ان سے دشمنی ہے لہٰذا جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ چلے جائیںقافلے میں شامل سب نے واپس جانے سے انکار کردیا اور آخری دم تک حضرت امام حسین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا،سیّدنا امام حسین نے اندھیرا اس لیے کیا تاکہ جو لوگ واپس جانا چاہیں ان کو ندامت نہ ہو، حضرت امام حسین کے ساتھ بہتر آدمی تھے،اور پھرکربلا کے میدان میں انسانی تاریخ کا المناک سانحہ پیش آیا،دسویں محرم عاشورہ کے روز حضرت امام حسیناپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن مجیدہاتھ میں لے کر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہۖ کے نواسے اور امیرالمومنین حضرت علی کے فرزندہیں،یزیدی فوج پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور شمر نے قافلہ امام حسین پر حملہ کردیا،حضرت امام حسین کے رفقاء باری باری لڑتے ہوئے شہید ہوتے گئے اور آخر کار حضرت امام حسین کو بھی محرم کے مہینے 61 ہجری یوم عاشور (جمعہ کے دن) شہید کردیا گیا اس وقت آپ کی عمرمبارک 54 سال تھی۔
امت رسول اللہ ۖ کے فرمان مطابق قرآن مجید اوراہل بیت کادامن مضبوطی سے تھامے رکھتی یعنی قرآن کریم کی تعلیمات پرعمل پیراہوتی اورآپ ۖ کے اہل بیت کے ساتھ بے لوث اورخالص محبت کرتی توزوال کبھی اس کامقدرنہ بنتا،رسول اللہ ۖ نے اہل بیت کی محبت کاحکم فرماتے وقت اپنی طرف سے بات نہ کی بلکہ اللہ سبحان تعالیٰ کی طرف سے یاددہانی فرمائی وہ بھی ایک بار نہیں تین بار۔”میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں،میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں،میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں”امت پررسول اللہ ۖ کی اہل بیت کے ساتھ محبت واحترام کے ساتھ اُن کا خیال رکھنابھی فرض ہے،ایک بات انتہائی قابل ذکرکہ آج اکثرلوگ اہل بیت کی خدمت زاکوة وصدقہ سے کرنے کوجائزسمجھتے ہیں جبکہ اہل بیت کوزاکوة وصدقہ دیناکسی صورت جائزنہ ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ آپ ۖ کے اہل بیت میرے لئے اپنے عزیزواقارب سے زیادہ محترم اور توجہ کے حقدارہیں جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ آپ سرکارۖکے اہل بیت کاہم پرحق ہمارے عزیزواقارب سے زیادہ ہے،اہل بیت کی محبت،احترام اورخیال رکھناہم پرفرض ہے لہٰذااپنے اردگردآل رسول ۖ کے ساتھ خصوصی رابطہ،محبت،احترام اوراُن کی ضروریات کاخیال رکھاکریں اورحضرت امام حسین کی عظیم قربانی کا درس یہ ہے کہ حق پرسمجھوتہ کسی صورت نہیں کیاجاسکتاچاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے لہٰذاحق اورسچ کاساتھ دینابھی ہم پرفرض ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com. 03134237099