حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ کے دور میں قانون سازی

Hazrat Umar Farooq

Hazrat Umar Farooq

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی

دنیا کی تاریخ بادشاہوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ایک سے ایک قابل اور ایک سے بڑھ کر ایک نااہل ترین حکمرانوں نے اس دنیا کی تاریخ میں اپنے نام کھرچے۔لیکن گنتی کے چند حکمران گزرے ہیں جو بذات خود قانون ساز تھے اور انہوں نے صرف حکمرانی ہی نہیں کی بلکہ انسانیت کو جہاں قانون سازی کے طریقے بتائے وہاںقوانین حکمرانی و جہانبانی بھی بنائے۔ایسے حکمران انسانیت کااثاثہ تھے۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب خلیفہ ثانی انہیں حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے عالم انسانیت کو وحی الہی کے مطابق قوانین بناکر دیئے اور قانون سازی کے طریقے بھی تعلیم کیے۔آپۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتاتووہ حضرت عمر ہوتے۔حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ نے نبیۖکے اس قول کو سچ کردکھایااور حدوداﷲسے لے انتظام سلطنت تک میں اس اس طرح کی قانون سازی سازی کی کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی سائنس اور تکنالوجی اور علوم و معارف کی دنیاؤں میں آپ رضی اﷲتعالی عنہ کے بنائے ہوئے قوانین ”عمرلا(Umar Law)”کے ہی نام سے رائج و نافذ ہیں اور عالم انسانیت تک حضرت عمررضی اﷲتعالی عنہ کافیض عام پہنچ رہاہے۔دنیاکے دیگربادشاہوں نے جوکچھ بھی قانون بنائے وہ اپنی ذات،،نسل،خاندان یااپنی قوم و ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے ۔جبکہ حضرت عمر کے بنائے ہوئے قوانین میں خالصتاََشریعت اسلامیہ کے فراہم کیے ہوئے اصول و مبادی شامل تھے۔باقی بادشاہوں اور حضرت عمر کی قانون سازی میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ باقی بادشاہوں کے قوانین ایک دفعہ بننے کے بعد ان بادشاہوں کی اناکامسئلہ بن جاتے،اور کوئی بادشاہ بھی ان قوانین میں تبدیلی کو اپنی اناوخودی کی تذلیل سمجھتاجب کہ حضرت عمررضی اﷲتعالی عنہ کوجب بھی اپنی قانون سازی کے برخلاف کوئی نص میسر آتی توآپ فوراََ رجوع کرلیتے اور کبھی بھی اپنی جھوٹی اناکے خول میں گرفتار نہ ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کل اسلامیمکاتب فکر میں آپ کے فیصلوں کو قانونی نظیرکی حیثیت حاصل رہی ہے۔

حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ کی قانون سازی کاسب سے پہلااصول کتاب اﷲسے استفادہ تھا۔آپ رضی اﷲتعالی عنہ نے اپنے دورحکمرانی میں متعدد گورنروںکوجو خطوط لکھے ان میں سب سے پہلے قرآن مجید سے استفادہ کاحکم لکھا۔حضرت عمررضی اﷲتعالی عنہ کی قرآن فہمی کی سب سے عمدہ مثال ایران و عراق کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں آپ کااجتہادی فیصلہ تھا۔معروف طریقے کے مطابق ان زمینوں پرمجاہدین کاحق تھاکہ ان میں یہ زمینیں تقسیم کردی جاتیں،لیکن اگرمجاہدین بیلوں کی دم تھام لیتے اور زمینوں کی آبادکاری پر جت جاتے تو دنیامیں اقامت دین اور اعلائے کلمة اﷲ کے ذریعے شہادت حق کا فریضہ پس پشت چلاجاتا۔حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ کی دوربین نگاہوں نے اس کاحل قرآن مجیدکے اندر سورة حشر کی ان آیات میں تلاش کرلیا ” وَ مَآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ ٰلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہ’ عَلَی مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر(٥٩:٦) مَآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی َرسُوْلِہ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئَ مِنْکُمْ وَ مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ’ وَ مَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(٥٩:٧) لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصَرُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ’ اُولٰئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ(٥٩:٨) وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَة وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(٥٩:٩) وَ الَّذِیْنَ جَآئُ ْو مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلَّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْف رَّحِیْم(٥٩:١٠)”ترجمہ:”اور جومال اﷲتعالی نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹادیے ،وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پرتم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں،بلکہ اﷲتعالی اپنے رسولوں کوجس پرچاہتاہے تسلط عطافرمادیتاہے ،اور اﷲتعالی ہر چیزپر قادرہے۔

جوکچھ بھی اﷲتعالی بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسولۖکی طرف پلٹادے وہ اﷲتعالی اسکے رسولۖاوررشتہ داروں اوریتامی اورمساکین اورمسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتارہے۔جواورجوکچھ رسولۖتمہیں دیں وہ لے لواورجس سے روکیں اس سے رک جاؤ،اﷲتعالی سے ڈرو،اﷲتعالی سخت سزادینے والاہے۔(نیز وہ مال)ان غریب مہاجرین کے لیے ہے جواپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں،یہ لوگ اﷲتعالی کافضل اورخوشنودی چاہتے ہیںاوراﷲتعالی اوراس کے رسولۖکی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں،یہی راستبازلوگ ہیں۔(اوروہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے)جوان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکردارالہجرت میں مقیم تھے ۔یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جوہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیںاورجوکچھ بھی ان کودیاجائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اوراپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیںخواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ،حقیقت یہ ہے کہ جولوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔(اوروہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے)جوان اگلوں کے بعد آئے ہیں ،جوکہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جوہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اورہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ ،اے ہمارے رب توبڑامہربان اور رحیم ہے۔”پس ان آیات سے حضرت عمرنے بڑی باریک بینی سے استنباط قانون کیااور جسے مال غنیمت یعنی جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والامال سمجھاجارہاتھااور جس کی تقسیم کے لیے امیرالمومنین پر بہت زیادہ دباؤ تھا،آپنے اسے مذکورہ نص قرآنی سے ”مال فے”یعنی بغیرلڑائی کے حاصل ہونے والا مال ثابت کیااور قرآن کے مطابق اس مال میں چونکہ بعد میں آنے والوں کاحصہ بھی شامل ہے اس لیے مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔

شریعت اسلامیہ میں کتاب اﷲکے بعد دوسراسب سے ماخذقانون سنت رسول اﷲۖہے۔کم و بیش دس سالہ مدت اقتدارمیں متعدد بار حضرت عمرنے حدیث نبوی ۖکے مل جانے پر اپنی رائے سے رجوع کرلیاتھا۔اطاعت رسولۖکی اس سے اورعمدہ مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔حضرت سعیدبن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہاتھ کے انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ مقرر کی تھی جب کہ باقی انگلیوں کی مقداردیت اس سے کم تھی،حضرت عمر کاموقف تھا کہ انگوٹھاچونکہ زیادہ کاآمد ہوتاہے اس لیے اس کی دیت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔لیکن جب عمروبن حزم کے ہاں سے ایک تحریردریافت ہوئی جس میں آپۖ کے حوالے سے نقل کیاگیاتھاکہ ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے توحضرت عمرنے بلا چوں و چرااپنی اجتہادی و قیاسی رائے سے رجوع کرلیااور حدیث نبویۖ کے مطابق مقدمات کے فیصلے جاری فرمائے۔

اسی طرح جب شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور مسلمانوں کاایک بہت بڑالشکرحضرت ابوعبیدہ بن جراح کی کمانداری میں وہاں موجود تھاتوحضرت عمراور حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے درمیان ایک نزاع چل پڑی کی لشکر کوقیام کاحکم دیاجائے یاخروج کا۔ابھی یہ نزاع جاری تھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حدیث نبویۖپیش کردی کی ”جب تم سنوکہ فلاں علاقے میں وباہے توتم وہاں نہ جاؤاور اگرتمہاراقیام ایسے علاقے میں ہے جہاں وباپھوٹ پڑی ہوتووہاں سے مت بھاگو”حضرت عمرنے یہ حدیث نبویۖ سن کر اﷲتعالی کاشکراداکیااور حکم نبویۖکے مطابق فیصلہ صادرفرمایا۔حضرت عمرکے ہاں قبولیت حدیث کامعیار بھی بہت سخت تھا۔ایک بار آپ نے حضرت ابوموسی اشعری کو بلابھیجا۔کافی دن گزرگئے توحضرت ابوموسی اشعری سے جب حضرت عمر کی ملاقات ہوئی توحضرت عمر نے پوچھامیں آپ کو بلایاتھاتوآپ کیوں نہیں آئے۔حضرت ابوسی اشعری نے کہاکہ میں آیاتھاتین باردروازہ بجایاآپ نہیں نکلے تومیں لوٹ آیا۔حضرت عمر نے وجہ پوچھی تو حضرت ابوموسی اشعری نے اپنے اس عمل کے جواز میں حدیث نبویۖ پیش کردی۔حضرت عمر اس حدیث کواس وقت تک قبول کرنے سے انکار کردیاجب کہ کوئی گواہ نہ ہوں۔اس پر حضرت ابوموسی اشعری دوگواہ لانے پڑے ۔تعامل حدیث کے معاملے میں اپنی اولاد سے بھی رعایت نہیں کرتے تھے،ایک بار لخت جگرنے کہاکہ مجھے توکدو پسند نہیں ہے،اس پر حضرت عمر بیٹے سے ناراض ہوگئے کہ نبیۖکی پسندیدہ سبزی کے بارے میں بیٹے نے ایسی ر ائے کیوں دی۔پھرتین دن کی مدت ختم ہونے پہلے خود ہی ناراضگی ختم کردی کہ تین دن سے زائد ناراضگی سے ایک حدیث نبویۖ میں منع کیاگیاہے۔

مشاورت کاطریقہ اجماع امت تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔حضرت عمر کے دورمیں حکومت کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ مشاورت بھی تھی۔حضرت عمر کی مشاورت دو وجوہات سے جداگانہ تھی،ایک تو ہرچھوٹے بڑے معاملے میں اہل الرائے افراد کو جمع کرکے ان سے رائے لی جاتی۔ایک اعلان کرنے والادارالخلافہ کی گلیوں میں ”یاایھالجماعة”کے اعلان کے ساتھ گھومتاچلاجاتااورعمائدین ریاست مسجد میں جمع ہوجاتے۔بہت چھوٹے چھوٹے معاملات بھی جن میں کہ حکمران کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے ،ان میں بھی مشاورت کی جاتی اور نتیجے کے طور پر معاملات کے حل کی متعدد سورتیں سامنے آجاتیں اور پھر اتفاق رائے یاکثرت رائے سے بہترین فیصلے تک پہنچ جایاجاتا۔حضرت عمر کی مشاورت کی دوسری اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ خلیفہ وقت خود ایک رائے دہندہ کی حیثیت سے شریک مشورہ ہوتاتھااور اپنی رائے کے برخلاف فیصلہ پر بھی تیوری نہ چڑھائی جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ رائے دینے والے خلیفہ کے رعب و دبدبے کے باوجود کھل کر اپنی رائے کااظہارکرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ امیرالمومنین نہ صرف یہ کہ اپنی مخالفت پر خفگیں نہیں ہوں گے بلکہ اچھااورصائب مشورہ دینے پر حکمران وقت اپنی رائے واپس بھی لے لے گااورکسی طرح کی بدمزگی بھی پیدانہیں ہوگی۔حضرت عمر کے اس رویے نے ان کے دورحکومت کو چارچاند لگائے۔بعض مورخین تویہاں تک خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمر ذاتی اعتبارسے کوئی قابل ذکراہلیت و قابلیت کے مالک نہیں تھے لیکن ان کی مشاورانہ عادت نے انہیں بام عروج تک جاپہنچایا۔تاہم اس رائے سے اتفاق کرنایاناکرنا ہر فرد کااپناجمہوری حق ہے۔

دورفاروقی میں جب مے نوشی کے واقعات کثرت سے وقوع پزیر ہونے لگے تو اگرچہ حضرت عمر خود کوئی بھی حکم دے کر اس کاسدباب کرسکتے تھے لیکن انہوں صحابہ کبارکو مشورے کے بلابھیجا۔حضرت علی نے حالت مخمورمیں ہزیان بکنے والے کے منہ سے بہتان تراشی کے اندیشے پر قیاس کرتے ہوئے حدقذف کے اجراکی سفارش کی۔کل صحابہ نے اس رائے سے اتفاق کیاجس سے شراب نوشی کی حد کو حد قذف سے ہی محدود کردیاگیایعنی اسی درے۔کل حدوداﷲکاتعلق نص قرآنی سے ہے لیکن چونکہ اجماع صحابہ قرآن مجید کے برابر مانا جاتاہے کیونکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین اجماع صحابہ کاہی ثمرہ ہے اس لیے اجماع صحابہ کے نتیجے میں شراب نوشی کی سزاکوبھی حدوداﷲمیں شامل ہونے کادرجہ حاصل ہے۔سلطنت ایران کے ساتھ جہاد کے وقت حضرت عمر کی شدید خواہش تھی کہ وہ خوداس جنگ کی قیادت کریں،اس لیے کہ شرق و غرب کے کل عساکراسلامیہ اس جنگ میں جھونک دیے گئے تھے،ناکامی کی صورت میں زوال کلیہ کا مکروہ چہرہ دیکھنے کاامکان تھاچنانچہ تاریخ کے اس نازک موڑ پرحضرت عمر خودافواج اسلامیہ کی کمانداری کرنا چاہتے تھے لیکن اس موقع پر بھی اجتماعی مشاورتی رائے کے سامنے حضرت عمر نے سپر ڈال دی کیونکہ حضرت علی نے سختی منع کردیاتھااورکہاتھاکہ مرکزخلافت کو کسی صورت خالی نہ چھوڑاجائے۔ایک بار جب حضرت عمررات کو گشت کررہے تھے تو ایک گھرسے فراق کے نغموں کی نسوانی آواز آئی۔اگلے دن تحقیق کی تو معلوم ہوااس عورت کاشوہر محاذجنگ پر گیاتھا۔آپنے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ سے مشورہ کیاتوانہوں نے بتایاکہ شوہرکے بغیر چارماہ تک عورت صبر کرسکتی ہے۔حضرت عمر نے اسی وقت یہ حکم جاری کیاکہ چارماہ کے بعد ہرفوجی کو جبری رخصت پر گھربھیجاجاتاتھا۔مشاورت کاعمل حضرت عمر کواس قدر عزیزتھا کی آپ نے اپنے پورے دورحکومت میں صحابہ کبار اور عمائدین قریش کودارالحکومت سے باہر کاسفرنہیں کرنے دیا،صرف حج کی اجازت تھی ۔حضرت عمر کے اس فیصلے کوبعض لوگ تنقید وتنقیص کی نظر سے بھی دیکھتے ہیںلیکن اس کااتنافائدہ توضرور ہوا کہ صائب الرائے حضرات کی ایک معقول تعداد صباح و مساء حکمران وقت کے یمین و یسارموجود رہتی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ مشورہ دینے والے ہی حکمرانوں کو ڈبوتے بھی ہیں اور پاربھی لگاتے ہیں،پس اب یہ حکمران پر منحصرہے کہ خوشامدیوں کو شریک مشورہ کرے اور قوم لی لٹیاڈبودے یانقادوں کے تندوتیزنشتروںکاسامناکرے اور آسمان دنیاپر سورج اور چاندکی طرح جگمگائے۔

حضرت عمر ذاتی قیاس و اجتہادسے بھی قانون سازی کرتے تھے،لیکن اجتہاد کایہ عمل قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی حدود کے اندر ہوتاتھا۔چنانچہ حضرت عمر نے ذمیوں پر قابل برداشت ٹیکس عائد کیااور جو ذمی بوڑھاہوجاتااورٹیکس دینے کے قابل نہ رہتاتوحضرت عمر سرکاری بیت المال سے اس کاوظیفہ بھی مقررفرمادیتے تھے۔حضرت عمر سے پہلے مفقودالخبرشوہر کی منکوحہ کواس وقت تک عقد ثانی اجازت نہ تھی جب تک کہ اس کے شوہر کے ہم عمر فوت نہ ہوجائیں۔حضرت عمر اپنی اجتہادی رائے سے ایسی عورت کے لیے چارسال کے انتظارکوکافی سمجھا۔حضرت عمر کی اجتہادی رائے تھی جب بھوکے غلاموں نے اونٹنی چوری کرکے کھائی تو ان غلاموں کی حد ساقط کردی اور ان کے آقا سے دوگناتاوان وصول کیا۔حدودکااجراخالصتاََحاکم وقت کی ذمہ داری ہے لیکن وسعت سلطنت کے باعث آپ نے اجتہاداََیہ اختیاراپنے نائبین کوتفویض کردیاتھاسوائے ان حدود کے جن کی سزامیں زندگی کاخاتمہ شامل تھا۔اسی طرح نومفتوحہ علاقوں میں حدوداﷲکے اجراکو علم سے مشروط کردیاتھایعنی حدودسے لاعلم شخص پرحدجاری نہیں کی جاتی تھی ۔آپنے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کوخط لکھاکہ پہلے حدوداﷲکے بارے میں لوگوں کوبتاؤاوراس کے بعد اگرکوئی ارتکاب جرم کرتاہے تواس پرحدجاری کرو۔ایک اور واقعہ میں یحی بن حاطب کی آزادکردہ لونڈی ”مرکوش”لوگوں سے کہتی پھررہی تھی کہ میں نے زناکیاہے،حضرت عمر نے اسے حضرت عثمان کے مشورے سے کوڑوں کی سزادی اور رجم نہیں کیاکیونکہ اسے حدزناکاعلم نہیں تھا۔امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب کے یہ اصول قانون سازی آج بھی زندہ ہیں اور لوگ آسمان رسالت کے اس چمکتے دمکتے ستارے سے آج بھی روشنی حاسل کررہی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com