سبق ہے یومِ عاشور

Muharram-ul-Haram

Muharram-ul-Haram

تحریر : شاہ بانو میر

سبق ہے یومِ عاشور

محرم کی آمد آمد ہونے لگی
اسلامی تاریخ کے علاوہ دیگر کتب میں
مؤرخین کی آراء بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا
کچھ بیانات محرم اور سانحہ کربلا سے متعلق
سیاسی نوعیت کے تھے
لیکن
کربلا ایک قیامت خیز سانحہ تھا اور ہمیشہ رہے گا
کسی کی سوچ سے اختلاف یا مطابقت ہر ایک پر ہے
مگر
ہم ہیں تو امت مسلمہ
ایک جان ایک جسم
اور
جسم کے کسی ایک حصے کو اگر اذیت پہنچتی ہے
تو
کیسے ممکن ہے باقی اعضاء درد سے مبّرا ہوں؟
تاریخ نے کربلا کے میدان میں
پیاس سے ۫ سسکتے کس کس کو نہیں دیکھا
بھوکے پیاسے وہ جن میں ہر عمر کا انسان تھا
جو اپنی جان کو قربان کر کے تاریخ کو مرتب کر گیا
محرم سے اتفاق یا اختلاف رکھنے والے ایک نقطے پرمتفق ہیں
کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
آج دنیا انتہاء پسندوں کے قبضے میں جا رہی ہے
کچھ بڑی طاقتیں جو دنیا میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں
وہ اپنی پالیسیوں سے دنیا کو اپنے حساب اور اپنے وضع کئے گئے
نقشے کی حدود میں ہی دیکھنا پسند کرتی ہیں
جب دنیا کی سوچ اور طاقت کا توازن
چند ممالک کے ہاتھوں میں سمٹ آیا ہو
تو
ایسے میں اسلام دشمن
ایسے ستم ڈھائیں گے
کہ
ہر میدان کے ساتھ موجود دریا خشک کر دیا جائے گا
اور
ہر حلق کو تر ہونے کیلئے تیر سے خود اسی کے لہو میں ڈبو دیا جائے گا
ہر اسلامی خطہ کربلا بنایا جائے گا
فلسطین کی آبادیوں پر ظالمانہ جابرانہ تسلط کیلئے
حملے کرکر کے انہیں یوں پیچھے دھکیلا گیا
سکڑتے سکڑتے وسیع و عریض خطہ سے
مختصر سے دھبے میں دکھائی دیتے ہیں
یہ اس لئے ہوا
کہ
سیکڑوں شھادتوں کو دیکھتے ہوئے بھی
ہم لب سئے اپنے آپ کو بچاتے رہے
توشھادت حسین ہمیں سکھا کر کیا گیا؟
نجانے کیوں؟
مجھے اب ایسا لگتا ہے
ہم زوال پزیر ہو چکے ہیں
جس قوم میں جوش ولولہ اور اپنے حقوق کیلئے آہ و بکاہ رہ جائے
اور
ماضی کے شیردل مومنوں کی طرح آج ہمارے جوان حق کیلئے
آواز اٹھانے سے قاصر ہوں
وہاں ایسی کربلا اور ایسے سانحات ہمیشہ جنم لیتے رہیں گے
اس محرم میں کیا ہم سب یہ عہد کر سکتے ہیں
کہ
داستان شجاعت حسین سنتے ہوئے آنسوؤں کی بجائے
عہد مصمم کیا جائے
کہ
یہ جو نئے کربلا کے میدان فلسطین اور کشمیر میں پھر سے
دشمنان اسلام تازہ کرنے جا رہے ہیں
ہم شھادت حسین کا مقصد جان کر
مزید کربلا نہیں بپا ہونے دیں گے
شہیدوں کی قیمتی جانوں کو خراج عقیدت صرف اکٹھے ہو کر نہیں ادا کریں گے

محرم کی حرمت کو ہر مسلمان جانتا ہے
خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو
نواسہ رسول جگر گوشہ فاطمہ تو سب کے لاڈلے اور پیارے تھے
ان کی شہادت پر نہ تو غمزدہ بہن بھائیوں کو دلیلیں دے کر
ان سے بحث کر کے باہمی بھائی چارہ خراب اور کمزور کرنا ہے
بلکہ
احترام کیجیے
ماہ محرم تخلیق کائنات سے ہی
چار حرام یعنی مقدس حرمت والے مہینوں میں شامل ہے
ذی القعدہ ذی الحج محرم رجب
عربوں کی زندگی زمانہ جہالت میں
رہزنی لوٹ مار اور قافلوں کی لوٹ مار سے پُر تھے
لیکن
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ابتداء ہی سے
کاروبار زندگی کو چلانے کیلیۓ
ان جہلاء پر یہ چار ماہ نافذ کئے
ان مہینوں میں
یہ قتل ڈکیتی لوٹ مار ناحق قتل اور ہر طرح کی برائی سے اجتناب برتتے تھے
آج میں اور آپ کہنے کو انتہائی مہذب دنیا کے فرد ہیں
لیکن
ذرا اس پڑھی لکھی دنیا کے انصاف اور تقاضے پرکھیں
کسی مہینے کی کوئی حرمت کہیں دکھائی دیتی ہے؟
جانوروں جیسا حال اور جنگل سے بد تر ماحول ہے
نہ جان محفوظ ہے نہ مال نہ کسی کی عزت نہ آبرو
ایسا کیوں؟
اس لئے کہ ہم نے اپنے اصل کو بھلا کر اغیار کی ذہنی تعظیم کرنی شروع کی
حالانکہ
سوچا جائے تو پتہ چلے گا
ان کے پاس ہے کیا ؟
ماسوا
اس کھوکھلی جھوٹی بناوٹی مصنوعی دنیا کی چمک دمک کے؟
جبکہ
ہم کون تھے؟
یاد کیجیے ہم وہ ہیں
جن کے لئے یہ دنیا تو عارضی پناہ گاہ ہے
ایک وقت مقررہ تک یہاں ٹھہرنا ہے
نعمتوں رونقوں نہروں میووں حوروں شراب الطہور کے جام دیتے کم سنوں
کے حسین انداز جہاں ہیں
وہ ہے ہماری مستقل قیامگاہ
جس کو نہ کسی نظر نے آج تک دیکھا اور نہ سوچ سکتا ہے
کس قدر حسین و جمیل ہے وہ جنت
اہل ایمان کیلئے
اور
شھداء کے درجات تو سبحان اللہ
اعلیٰ و برتر
یہ دنیا اس کی بھاگ دوڑ اس کی کمائی
اور
جھوٹی شان و شوکت سے دوسروں کو متاثر کر کے جینا انکی مجبوری ہے
کیوں؟
اس لئے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں
ہر عاشور پر سوچنا ہے
کہ
اپنے مقصد سے کتنا فاصلہ اور طے کرنا ہے
کہ
پھر کربلا بپا کرنے کی جسارت کوئی کر نہ سکے
یہ ہوگا کب؟
جب واپسی کا سفر اپنےا صل پر ہوگا
دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے
اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں کامیاب لوگوں کو تھمایاجائے گا
اہل اسلام
آج بھی اگر ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
آئیے
اس محرم کو اس سوچ کے ساتھ گزاریں گے
کہ
ہم حرمت والے مہینے کا تقدس برقرار رکھیں گے
نہ
کسی پر طنز کریں گے اور نہ ہی بحث و مباحثہ
سوچیں گے غور کریں گے
کربلا کا مہینہ سمجھ کر محرم کو ہر سال گزارا جاتا ہے
لیکن
کیا
اسلام پر مسلمانوں پر صرف وہی ایک کربلا ڈھائی گئی
یا
یہ سلسلہ صدیوں سے دراز ہوتا چلا جا رہا ہے
کل کے بہتر آج کے بہتر لاکھ میں تبدیل کرنے کی
بین القوامی سازش پر اگر باہمی جھگڑوں میں گم سوچا نہ گیا
تو یاد رکھیں
قوموں کی زندگی کو تقویت ارادے مقاصد اور عمل دیتے ہیں
دنوں یا تہواروں کی تاریخیں نہیں
ایک جسم بن کر ایک ساتھ اکٹھے ہو کر
اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ اس محرم سے شروع کریں
کامیاب امت کیلیۓ باہمی برداشت آب حیات ہے
جو اسے رہتی دنیا تک جینے کیلئے طاقت مہیا کرتا ہے
نفرت دشمنی حسد اختلاف رائے کو بھول کر انسانوں سے اوپر اٹھیں
اور
نعمتوں کو عطا کرنے والے رب کے فیصلے کہ محرم حرمت والا مہینہ ہے
اس حکم کو یاد رکھیں
اور
ایک دوسرے کی عزت جان و مال کا تحفظ زمانہ جاہلیت سے بڑھ کر کریں
اگر
اس سال یہ سوچ پنپ گئی
تو امید کامل ہے
ہم پژ مردہ امت سے پھر
انشاءاللہ ٌ
امت مسلمہ کے مومنوں طرف واپسی کا سفر شروع کریں گے
حسین نواسہ رسولﷺ سے ہماری محبت اداسی میں تبدیل نہ ہو
تو
یوم عاشور پر اپنے طرز عمل اور اپنے ایمان کے بارے میں سوچیں ضرور
وہ تو کربلا میں اپنا لہو جذب کر کے اس مٹی کو مطہر و پاکیزہ بنا گئے
اپنے نام مقام وقت کے سینے پر کندہ کروا گئے
زندہ داستانیں قیامت تک دہرائی جائیں گی
سوچنا تو ہمیں ہے
ہمارا نقطہ نظر خواہ کچھ بھی ہو
شھادتوں سے اختلاف تو نہیں کیا جا سکتا
مظلومیت اور بھوک پیاس تپتے صحرا میں پیاسے ننھے معصوموں
کی چیخ و پکار تو قیامت صغریٰ بپا کر گئی تھی
عورتوں کے نوحے ان کے بین زمین کو ہلا گئے تھے
بیچارگی بے بسی اور سر کٹانے کا حوصلہ تو ہر زاویے سے
سچ تھا اور رہے گا
ہر سال دن آتا ہے گزر جاتا ہے
آج یوم عاشور پر کیا حشر ہوتے دیکھ رہے ہیں
اپنے گرد و نواح میں
یہ بھی تو کربلا ہے
کشمیر ہے یا فلسطین
لیکن
بطور امت ہم نے سبق کیا لیا ؟
عملی قدم کیا اٹھانے کا سوچا
اپنی ذات میں اپنے آپ میں کیا ایسا کیا
کہ
اسلام پھر ایسی کسی کربلا سے دوچار نہ ہو؟
افسوس
ہم نے تو ان کے راستے کے نشانوں کو گنوا دیا
شھادت پر ارادہ کیاکرتے
اسلام کے مقابل ہم نے گردوارے اور مندر بنا کر
جھوٹا سیاسی قد بلند کرنے کی ناکام کوشش کی
کیا یہی ہمیں کرنا چاہیے تھا؟
یا ہمیں اسلام کیلئے
بحالی عروج کی طرف قدم اٹھانا چاہیے تھا؟
سوچیں
محض دن سمجھ کر
اب کسی المیے سانحے کو نہ گزاریں اپنی ذمہ داری پہچانیں
حالات معاملات اور عرصہ حیات کا دائرہ امت پر
تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے
محرم کربلا
یوم عاشور سبق ہے
سمجھیں تو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر