تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:بہترین روزہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں(رواہ مسلم)
محترم مہینہ : چاند کی سالانہ گردش پھر ایک بار اپنا دورہ تمام کر چکی،اور اسلامی سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ ختم ہو کر اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام شروع ہو گیا اور عجیب بات یہ ہے کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ میں جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کاواقعہ پیش آیا، تو محرم کی دسویں تاریخ میں سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کا واقعہ پیش آیا، گویا اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی قربانی والا ہے اور پہلا مہینہ بھی قربانی والا ہے ، فرق اتنا ہے کہ پچھلا مہینہ ہم سے قربانی طلب کرتا ہے تو اگلا مہینہ ہم کو طلب کرتا ہے ۔ غرض دونوں مہینے فضیلت ،عظمت اور حرمت والے ہیں،لیکن محرم کی حرمت تو اس کے نام ہی سے ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے کہ محرم کے لغوی معنیٰ معظم اور محترم کے ہیں، قرآن کریم میں بیت اللہ شریف کی نسبت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ایک دعا میں یہ الفاظ ہیں:رَبَّنَآ اِنّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ(براہیم)جیسے کعبة اللہ فضیلت اور حرمت والا ہے ، جس کی وجہ سے اسے محرم کہاگیا، ایسے ہی محرم بھی حرمت اور فضیلت والا ہے ،جس کی وجہ سے اسے بھی محرم کہاجاتاہے ۔ چناںچہ ارشادِ باری ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنا عَشَرَ شَھْراً فِی کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ مِنْھَآ أَرْبَعَة حُرُم(التوبة) یہ حقیقت ہے کہ مہینوں کی تعداد تو اللہ کے نزدیک بارہ ہی ہے ،اس دن سے جب سے اس نے زمین وآسمان بنائے ، اور ان میں سے چار مہینے خصوصاًحرمت والے ہیں ،یعنی محرم، رجب ،ذی القعدہ اور ذی الحجہ ۔
اللہ تعالیٰ کا مہینہ : پھر ان میں سب سے زیادہ حرمت و فضیلت محرم الحرام کو حاصل ہے ،اسی لیے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث بالامیں اسے شہراللہ (اللہ کا مہینہ )فرمایا،حالاںکہ مہینے تو سارے اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں ،لیکن یہ مہینہ بہت محترم اور مبارک ہے ، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے ’’شَھْرُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا، جیسے مساجد تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے گھر ہیں ، مگر مسجدحرام کو ’’بیت اللہ‘‘ اس کی عظمت و حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے ، اسی طرح او نٹنیاں تو ساری اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں ،مگرحضر ت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ’’نَاقَةُ اللّٰہِ‘‘ اس کی عظمت و حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے ،اسی طرح انبیائِ کرام تو تمام کے تمام اللہ تعالیٰ ہی کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں ،مگر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی عظمت وحر مت کی وجہ سے ’’مُحَمَّد رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا گیا، اسی طرح مہینے تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں ،مگر محرم الحرام کو اس کی حرمت و فضیلت کی وجہ سے ’’شَھْرُ اللّٰہِ‘‘ فرمایا ،محرم کی حرمت کے لیے یہی کافی ہے ۔
مزید فرمایا کہ یہ ایسا محترم مہینہ ہے کہ نفلی روزوں میں رمضان کے بعد اسی ماہ میں روزہ رکھنا سب سے زیادہ فضیلت کا باعث ہے ’’أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ‘‘ فرمایا،یعنی جیسے فرائض کے بعد نوافل میں قیام اللیل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے ،اسی طرح فرض روزوں کے بعد نفل روزوں میں محرم کے روزے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندہیں، ایک حدیث میں ہے : یعنی ایام محرم میں سے ایک دن کا روزہ رکھنا دوسرے مہینوں کے تیس دن روزہ رکھنے کے برابر فضیلت رکھتا ہے ۔(الطبرانی)
علامہ نووی (حدیث مسلسل کے تحت)فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صراحت کرتی ہے کہ نفلی روزے رکھنے کے لیے افضل ترین مہینہ محرم ہے ،اس میں عاشوراء اور اس کے علاوہ محرم کے دوسرے ایام کے روزے بھی داخل ہیں، یہ فضیلت ماہِ محرم کے تمام روزوں کو شامل ہے ، لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو اس پورے مہینے کے روزے رکھیں، یا اس کے ہر پیر او رجمعرات کو روزہ رکھیں، ورنہ نو، دس او رگیارہ کا،او رکم از کم نودس یادس گیارہ کو،مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ تر شعبان میں روزے کیوں رکھتے تھے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ محرم کی افضلیت کا علم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کواخیری عرصۂ حیات میں دیا گیا۔یا دوسرا جواب یہ ہے کہ اسفار و اعذار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو محرم میں بکثرت روزہ رکھنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔( واللہ اعلم ۔ مظاہر حق جدید) بہر حال !ان روایات سے محرم الحرام کی حرمت، عظمت اور فضیلت واضح ہوتی ہے ۔
ہجرت کا مہینہ : پھر یہ مہینہ عظیم الشان تاریخی واقعات کا حامل بھی ہے ،اس میں اہم اہم امور اور مہتم بالشان واقعات رونما ہوئے ،منجملہ ان میں سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرتِ مدینہ طیبہ کا واقعہ بھی اسی محترم مہینہ کی یادگار ہے ،جس کا بنیادی مقصد اللہ جل جلالہ کے پیغام و احکام کی حفاظت و دعوت تھا،اور جو باطل پر حق کی کامیابی کا سب سے بڑا پیش خیمہ تھا ،جس کے بعد اسلام اور اہل اسلام کو صحیح طور پر عقیدہ و عمل کی پوری پوری آزادی ملی ،روایات میں آتا ہے کہ نبوت کے تیر ہویں سال محرم الحرام میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے بحکم الٰہی ہجرتِ مدینہ کی نیت فرمائی، پھر کچھ دنوں کے بعد روانہ ہوگئے ،اسی وجہ سے سیدنا فاروقِ اعظم نے اپنے دورِ خلافت کے چوتھے یا پانچویں سال میں حضر اتِ صحابہ کے اجماع سے یہ فیصلہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اسلامی سال کے پہلے مہینہ ہی میں ہجرت کی نیت کر چکے تھے ،لہٰذا سن ہجری کی ابتداء بھی اسی مہینہ سے کی جائے ، اس طرح سن ہجری کی ابتداء محرم الحرام سے ہوئی، جو ایک یاد گار ہی نہیں، بلکہ اسلامی تشخص (امتیاز)اور مسلمانوں کا شعار ہے ۔( سیرتِ مصطفی) اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہینہ کی عظمت وحرمت سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین بجاہ سیدالمرسلین)
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور ناظم سہ ماہی ”المنار”جامعہ علوم القرآن پشاور انچارج شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ علوم القرآن پشاور 0313-592058 rizwan.peshawarii@gmail.com