مُحرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے محرم کے معنی تعظیم کیا گیا اور حرام کے معنی عظمت والا۔ مسلمان محرم کا چاند دیکھ کر اپنے اسلامی سال کا آغاز کرتے ہیں اسلامی چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے جن کا تقدس اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں قائم کیا ہے۔ محرم مہینے پر بات کرنے سے پہلے دنیا کے اندر رائج کیلنڈرز پر بات کرتے ہیں تا کہ بات ذرا زیادہ صاف ہو جائے انٹرنیٹ سے معلومات کے مطابق دنیا میں کیلنڈرز کی تعداد 49 ہے جس میں مایا کیلنڈر بھی شامل ہے گذشتہ دنوں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے اس بات کو خوب اُچھالا کہ 21 دسمبر 2012 ء کو مایا کیلنڈر کے مطابق قیامت برپا ہونے والی ہے وہ تاریخ گزر گئی مگر قیامت برپا نہ ہوئی قیامت تو ایک دن ضرور برپا ہو گی جس کا علم اسلامی نقطہ نظر سے صرف اللہ کو ہے نبی کو بھی نہیں مایا کلینڈر کو کیسے ہو سکتا ہے اسلامی کیلنڈر قمری ہے دینا میں مہینوں کا حساب قمری یا شمسی سسٹم سے لیا جاتا ہے دنیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے اپنے کیلنڈر بنائے ہوئے ہیں جو کچھ قمری ہیں تو کچھ شمسی اور کچھ دونوں کا ملغوبہ ہیں جن پر وہ عمل کرتے ہیں مسلمان جب تک دنیا پر حکمران تھے اسلامی دنیا میں تقریبا ّہزار سال تک اسلامی کیلنڈر پر ہی عمل ہوتا رہا ہے اب صرف چند اسلامی ملکوں یا اخبارات کے مین صفحے پر انگریزی کیلنڈر سے پہلے اسلامی کیلنڈر کی تاریخ، مہینہ اور سال لکھتے ہیں جو خوش آئند بات ہے مساجد میں اسلامی قمری کیلنڈر پر عمل ہوتا ہے دنوں، مہینوں اور گھنٹوں کے حساب کے لیے مساجد میں نمازوں کے دائمی اوقات کے چارٹ لگے ہوتے ہیں جس پر امام مسجد عمل کرتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ہیں۔
اسلامی کیلنڈر کے حساب سورج کے غروب ہونے پر دوسرا دن شروع ہوتا ہے جبکہ انگریزی کیلنڈر میں رات بارہ بجے دن ختم ہوتاہے اور اس کے بعد دوسرا دن شروع ہوتاہے اس وقت دنیا میں مہینوں، دنوں کے لیے انگریزی شمسی سسٹم کا کیلنڈر رائج ہے اس میں عیسائی مذہب کے ماننے والے حکمرانوں کا دخل ہے انہوں نے جس جس ملک میں حکومت کی اس ملک کا مذہب، تمدن اور کلچر تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اگر اسے پورے طور پر تبدیل نہ کر سکے تو کم از کم اس کا حلیہ تو بگاڑہی دیا دنیا کی قوموںمیں تاریخوں کا نشان ہمیشہ ان کے کسی خاص دن سے تعین کیا جاتا جیسے انگریزی کیلنڈر حضرت عیسیٰ سے منسوب ہے دنیا کے مذاہب میں ہمیشہ سے رواج رہا ہے کہ کسی فرد کے کسی یادگار دن سے منسوب کیا جاتاہے لیکن اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس کے دن مہینے اور سال بھی فطری ہیں ہجری کیلنڈر رسول اللہ کی ہجرت سے منسوب ہے جب رسول اللہ نے صحابہ کے ساتھ ہجرت کی تو ہجری سال اس عظیم ہجرت کے ساتھ منسوب کر دیا گیا تاکہ رہتی دنیا میں یادگار رہے اسلامی سال محرم سے شروع ہوتا ہے اور ذلحجہ پر ختم ہوتا ہے۔
Allah
جب سے اللہ نے آسمان و زمین بنائی ہے سال میں مہینوں کی تعداد بارہ رکھی ہے اس میں چار مہینے حرام قرار دیے ہیں چار مہینوں سے مراد ذی القعدہ، ذی الحجتہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرے کے لیے جس میں جنگ، ڈاکہ زنی اور امن و امان کی حالت خراب کرنے سے منع فرمایا گیا ہے تاکہ لوگ اللہ کے گھر کا حج اور عمرہ بغیر کسی خطرے کے کر سکیں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ”حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے’ ‘( توبہ ٦٣) ۔کیونکہ عرب دین ِابراہیم علیہ السلام پر قائم تھے اور انہوں نے ان کو اس پر عمل کرنے کی تاکید کی تھی جس پر وہ ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے بعددو ہزار سال سے زائد مدت تک صحیح عمل کرتے رہے بعد میں شرک میں مبتلا ہو گئے اور رسولۖ اللہ کے زمانے تک خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھ دیے اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے حرام مہینوں میں بھی رد وبدل کر لیتے تھے اس پر قرآن میں فرمایا گیا ہے” نسی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کر دیں۔
اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں”(التوبہ ٣٧) مشرکین نے اس کا طریقہ یہ بنا لیا تھاکہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اس میں گبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اوروہ موسم کی زحمتوں سے بچ جائیں یہ وہی بات ہے جو حجة الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبے میں فرمائی تھی یعنی اس سال حج کا وقت گردش کرتا ہوا ٹھیک اپنی اُس تاریخ پر آ گیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے ( حاشیہ٣٧تفہیم القرآن از سید ابوالاعلیٰ مودودی) آج تک حج قمری طریقے سے منایا جا رہا ہے جو فطری ہے کبھی گرمی اور کبھی سردی کے موسم میں حج آتا ہے۔ جہاں تک اسلامی دنیا میں محرم کے مہینوں میں اہم دنوں کے واقعات کا تعلق ہے تو یکم محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون پر فتح عطا فرمائی تھی اوربنی اسرائیل کو آزادی ملی تھی مگر بنی اسرا ئیل نے اس کی قدر نہیں کہ اور اللہ کا شکر گزار ہونے کے بجائے بغاوت کی راہ اختیار کی جس کے ذکر سے قرآن میں جگہ جگہ ان پر اللہ تعالیٰ نے ملامت کی اور آج بھی دنیا کو یہود و نصاریٰ جو بنی اسرائیل کی اولاد ہیں دکھوں سے بھر دیا ہے ان کے ہاتھوں اسلامی دنیا میں قتل وغارت گری ہو رہی ہے انہوں نے اپنے میڈیا کے زور پر مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کر دیا جبکہ یہ خود دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے یہود و نصارا مسلمانوں کے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان یہود و نصارا کی طرح نہ ہوجائیں کہ ” یہود ی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہو گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔”(البقرہ ١٢٠) دوسری جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” یہودیوں اور عیسایوں کو اپنا رفیق نہ بنائو، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار پھر انھی میں ہے ( المائدہ ٥١). آج ساری اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے یہود و نصارا سے دوستی کر لی ہے اسی لیے مسلمان ملکوں میں لوگ ان امریکی پٹھوں کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں اور یہ حکمران مسلمانوں کے خون سے کھیل رہے ہیں۔
دو محرم کو دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر کی شہادت ہوئی تھی جن کی اسلامی فلاحی حکومت بائیس ہزار مربع میل پر قائم تھی عیسایوں نے بہت سے دوسری تاریخی خیانتوں کے ساتھ ساتھ حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ بھی تاریخی خیانت کرتے ہوئے سکندر اعظم کو تاریخ کے اندر” الینگزنڈر دی گریٹ” کے نام سے مشہور کر دیا جبکہ تاریخی طور پر ثابت ہے اس کی حکومت صرف اٹھارہ ہزار مربع میل پر تھی اور حضرت عمر کی حکومت بائیس ہزار مربع میل پر تھی ۔دس محرم کو حضرت حسین کو کربلا کے میدان میں ظلم کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا ان کا قصور صرف اور صرف یہ تھا کہ نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نظامِ اسلام جس کو خلفا ء راشدین نے اس دنیا میں احسن طریقے سے چلایا تھا اس کے اندرخلل ڈال کر اسے اسلامی نظام حکومت سے ہٹا نے کی کوشش کر کے ملوکیت کی راہ میں ڈال دیا گیا تھا یہ حضرت حسین سے برداشت نہیں ہوا اور اپنے نانا حضرت محمد اللہ صلی علیہ وسلم کے اور اللہ کے حکم سے قائم کردہ نظامِ اسلام کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
ابو قتادہ کی حدیث کا مفہوم ہے رسول اللہ دس محرم یعنی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اس سے انسان کے گذشتہ سال کے گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے اب بھی مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے محرم میں عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو پتہ چلا یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ حضرت موسیٰ کی فرعون پر فتح بتاتے تھے اور موسی نے شکریہ کے طور پر روزہ رکھا تھا تو رسول نے فرمایا ہم تمہارے سے زیادہ موسی کے حقدار اور قریب ہیں رسول اللہ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا (بخاری و مسلم) قارئین! اگر آج بھی مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو محرم الحرام کے ساتھ ساتھ اللہ اور رسول کے بتائے احکامات پرصحیح صحیح عمل کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں ورنہ مسلمانوں کی حالت موجودہ حالت سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اللہ ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔