تحریر : عقیل خان آف جمبر مسلمانوں کے نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ دور جہالت میں بھی اس مہینہ کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔ی ہودیوں کے لیے بھی دس محرم کادن بہت معتبرک ہے اس دن یہودی بھی روزہ رکھتے ہیںاور خوشیاں مناتے ہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ 9 اور 10 محرم کے روزے رکھا کریں تاکہ ان سے تفریق ہو۔
یومِ عاشور کے ساتھ کئی تار یخی اور عظیم واقعات منسوب ہیں جن میںدنیا بھر کے انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش عاشورہ کے دن ہوئی تھی۔عاشورہ کے روز ہی حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل کئے گئے اورحضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی عاشورہ کے روز ہی قبول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے عرش، سورج، چاند، ستارے، زمین، آسمان اور جنت کی تخلیق بھی اِسی د ن کی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور انہیں نمرود کی آگ سے نجا ت کے دونوں بڑے واقعات بھی اِسی روز پیش آئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات کا دن بھی عاشو رہ تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی روز پیدا ہوئے اور اسی روز ہی انہیں آسمان پر اٹھایا گیا تھا۔ عاشورہ کے دن جہاں یہ واقعا ت ہوئے اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایاگیا۔حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات اس دن ملی۔حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کنارے اس دن لگی تھی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو سلطنت کا مالک اللہ نے اسی دن بنایا ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی۔اسی دن اللہ نے حضرت ایوب علیہ السلا م کو بیماری سے نجات دی۔حضرت خدیجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکا ح بھی اسی دن کیا تھا۔اسی دن پہلی بار آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ قیامت آنے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے قیامت کے دن 10محرم ہو گااورجس وقت واقعہ کربلا ہواا س روز بھی تاریخ 10محرم ہی تھی۔
حضرت امام حسین نے 10 محرم الحرام 61ھ کو جو عظیم قربانی دی اس واقع کو کئی صدیاں گزر گئیں مگر یہ آج بھی اپنی تروتازگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آزادی کے متوالوں ، ظلم سے ٹکرانے والوں ، حق کا پرچم بلند کرنے والوں، امر بالمعروف ونہی ازمنکر کا پرچم تھامنے والوں اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے و الوں کے لیے کربلا آج بھی مشعل راہ ہے۔ تحریک کربلا میں ہر مذہب ومسلک اور زندگی کے ہرشعبے کے افراد کے لیے یکساں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس تحریک میں چھ ماہ کے بچے سے لیکر اسی سال کے بوڑھے تک اور پاکباز خواتین کے تاریخ ساز کردار سے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
غیر مذہب اور جاہل معاشرہ میںجو جانوروں کے پانی پینے پلانے پر طویل جنگوں میں مصروف رہتے تھے وہ بھی اس ماہ میں جنگ نہیں کرتے تھے۔اسلامی دنیا میں محرم کی اہمیت واقعہ کربلا کی وجہ سے زیادہ ہوگئی۔حضرت امام حسین کو جب کربلا کے میدان میں شہید کیا گیا ، آپ کی شہادت کا واقعہ بہت لمبا اور دل سوز ہے جس کو لکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں اور پڑھنے کا حوصلہ آپ میںبھی نہ ہوگا۔ واقعہ کربلا میں 16اہل بیت سمیت 76افراد نے شہادت پائی۔جس دن حضرت امام حسین شہید ہوئے اس دن سورج گرہن ہوگیا ۔حضرت امام حسین کی شہادت پر انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات بھی روئے۔
Hazrat Imam Hussain
یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم ، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح بیابان اور جنگل میں گئے ا پنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی ، لو اور دھوپ کو دیکھا ، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا ، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکھااور پستی وگمنامی سے نکل کر شہرت ، عزت اور عظمت کے عروج پر پہنچ گئے۔لیکن سوائے ناکامی آج ہم نے ہجرت کے حقیقی درس کو فراموش کر دیا ۔ محرم الحرم کے ان واقعات میں دیکھا کہ اسلام کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں مگر افسوس آج کے مسلمان اس ماہ میں افسوس کے لیے کالے کپڑے پہننا، شاد ی بیاہ نہ کرنا جیسے کام تو کرتے ہیں مگر ان دودن میں روزہ رکھنے کی جو سنت ہے اس کو پورا نہیں کرتے ۔ اگر قربانی کا درس لینا ہے تو یہ محرم الحرام کا مہینہ کافی نہیں؟ آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کیونکہ دشمن اسلام تو کسی طرح بھی مسلمان پر وارکرنے نے باز نہیں آ رہا۔آج جبکہ عالم اسلا م پر مصیبتوں کے بادل چھائے ہیں۔ افغانستان و عراق طاغوت وقت کے زیر نگیں ہے۔ فلسطین پر صیہونی قبضہ اور اہل فلسطین پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ لبنان و شام پر بدامنی کے بادل چھائے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کی سازشیں عروج پر ہیں لیکن ان سے نمٹنے کی کوئی تدبیر نظر آتی ہے۔
قافلہء حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرا
کلمہ پڑھ لینا ہی مسلمان ہونے کے لیے ضروری نہیں اس پر عمل پیرا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے تو ہم اپنے اندر حضرت عمر اور حضرت امام حسین کی سی دلیری اور جذبہ شہادت پیدا کرنا ہوگا مگر افسوس کہ مسلمان ممالک بڑی خاموشی سے ان غیر مسلموں کی بدمعاشی کو قبول کررہے ہیں ۔ ہے کوئی ایسا حاکم اسلام جو امام حسین کی سنت کو پورا کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کو اس قرب سے باہر نکالے؟ نہیں ایسا کوئی مسلما ن حکمران نہیں کیونکہ یہ جذبہ تو ہم میں نہیں ہمارے بڑوں میں تھا۔ ہم تو مفت کا مال کھا کر ہڈحرام ہوگئے ہیں ۔ ہم کو دنیا عزیز ہے آخرت سے کوئی پیار نہیں۔کیونکہ ہمارے اندر موت کا کوئی ڈر نہیں۔ ہمیں خدا کے قہر کا کوئی خوف نہیں۔ ہمیں اگر محبت ہے تو بس دنیاداری سے۔ آؤ آج عا شورہ کے دن یہ عہد کریں کہ ہم امام حسن اور حسین کی تقلید کرتے ہوئے ہمیشہ اسلام کے لیے لڑیں گے۔دنیاداری کے بجائے اسلام کاجھنڈا بلند کریں گے۔فرقہ واریت کے بجائے صرف ایک اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کریں گے۔
Aqeel Khan
تحریر : عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com