یکم محرم الحرام کو امیرالمومنین حضرت عمرابنِ خطاب شہید ہوئے اور 10محرم کو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین کے خون سے خاکِ کربلا کو لہو رنگ کر دیا گیا۔ شاید اسی لیے ماہِ محرم میں فضائیں سوگوار رہتی ہیں اور چہار سُوایک عجیب سی اداسی کا عالم طاری رہتا ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر کی فضیلت کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ”اور حسین تو تھے ہی نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر کا عہدِ خلافت بیشمار ایمان افروز واقعات سے مزّین ہے اور صرف عالمِ اسلام ہی نہیں ، اقوامِ عالم میںبھی اُن کے عہدِ خلافت کو بطور نظیرپیش کیا جاتا ہے اور بیشمار یورپی مصنفین نے اُن کے عہدِ خلافت کی تحسین کی ہے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ ایک طرف تو امیر المومنین روم اور شام پر فوجیں بھیج رہے ہیں ، خالد بن ولید اور امیر معاویہ سے ملکی معاملات پر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ سعد بن وقاص ، ابو موسیٰ اشعری اور عمرو بن العاص کے نام احکامات لکھوا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بدن پر موٹے کھدر کا کُرتا ، سر پر پھٹا عمامہ ، پاؤں میں پھٹی جوتیاں اور اِسی حالت میں کاندھے پر مشک اُٹھائے بیوہ عورتوں کے گھر پانی بھرتے نظر آتے ہیں ۔جب تھک جاتے ہیں تو مسجد کے کونے میں خاک کے فرش پر لیٹ کر سو جاتے ہیں۔
راتوں کو گشت پر نکلتے کہ رعایا کی خبر گیری ہو سکے ۔ایک دن دورانِ گشت ایک عورت کو دیکھا جس کا بچہ بری طرح رو رہا تھا ۔ حضرت عمر نے غُصّے سے عورت کو کہا ”بچے کو چپ کیوں نہیں کراتیں”۔ عورت نے کہا ”عمر نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک دودھ نہ چھوڑیں ، بیت المال سے اُن کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے ۔اِس لیے میں نے بچے کا دودھ وقت سے پہلے ہی چھُڑا دیا ہے تاکہ وظیفہ شروع ہو ”۔ حضرت عمر رونے لگے اور اُسی دن منادی کروا دی کہ بچے جس دن پیدا ہوں ، اُسی دن سے اُن کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے”۔ آپ کے غلام کا بیان ہے کہ دورانِ گشت حضرت عمر نے ایک بیوہ عورت کے بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا تو واپس آ کر بیت المال سے کھانے پینے کا سامان اُٹھایا اور غلام کو کہا ”میری پیٹھ پر لاد دو”۔ غلام نے کہا ”میں لے چلتا ہوں ” ۔ آپ نے فرمایا ”کیا روزِ قیامت بھی میرا بوجھ تم اُٹھا لو گے۔
ایک دفعہ حضرت امام حسین اور حضر ت عمر کے بیٹے گلی میں کھیل رہے تھے کہ دونوں لڑ پڑے ۔حضرت امام حسین نے حضرت عمر کے بیٹے کو کہا ”ہٹ غلام زادے”۔ بیٹا روتا ہوا باپ کے پاس گیا اور کہا کہ حسین نے اُسے غلام زادہ کہا ہے۔حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا ”بیٹا ! بھاگ کر جاؤ اور حسین سے یہی بات لکھوا لاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ حسین انکار کر دیں اور ہم اِس سعادت سے محروم ہو جائیں ”۔جس کی غلامی پر امیر المومنین حضرت عمر کو فخر ہو ، اُسی کے خون سے کربلا کی ریت کو رنگنے والے کوفیوں کے بارے میں بھلا کوئی مسلمان کلمۂ خیر کیسے کہہ سکتا ہے ۔حسین تو وہ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورانِ نماز سجدے میں جاتے تو حضرت حسین پیٹھ پر سوار ہو جاتے اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُتنی دیر تک سجدے سے سر نہ اُٹھاتے جتنی دیر تک آپ اُتر نہ جاتے۔ننھّے حسین جب لڑکھڑاتے ہوئے باہر نکلتے تو نگاہ پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھاگ کر اُنہیں تھام لیتے لیکن اُسی حسین اور اہلِ بیعت پر لعین یزیدیوں نے تین دن تک پانی بند کیے رکھا اور پیاسے خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک فرد کو شہید کر ڈالا۔
Hazrat Imam Hussain
اگر امام حسین چاہتے تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی جان بچا لیتے لیکن اُنہیں تو اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی عظمت مقصود تھی، وہ تو گھر سے نکلے ہی نانا کے دین کو بچانے کے لیے تھے اِس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کسی لعین کے ہاتھ پر بیعت کر تے۔ تا قیامت سچائی کا یہ نور عالم کو منوّر کرتا رہے گا کہ شاہ است حسین ، پادشاہ است حسین دیںاست حسین ، دیں پناہ است حسین سر داد ، نہ داد دست در دستِ یزید حقا کہ بِنائے لا الہ است حسین
کربلا کی لہو رنگ خاک آج بھی پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ دینِ مبیں کی رفعتوں کی خاطر دی جانے والی اِس عظیم ترین قُربانی کی نظیر تاریخِ عالم میں ملتی ہے ، نہ ملے گی اور یہ بھی عین حقیقت ہے کہ شہادتِ حسین دراصل مرگِ یزید ہے کیونکہ جہاں حضرت امام حسین اور خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے ، وہیں یزید اور یزیدی فوج پر تبرا بھی بھیجا جاتا ہے اور تا قیامت بھیجا جاتا رہے گا ۔ لاریب کوئی مسلمان اہلِ بیعت پر گزرے ہوئے اِس سانحۂ عظیم کی کوئی توجیہہ پیش کرکے گنہگار نہیں ہو سکتا لیکن انتہائی دُکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وطنِ عزیز میں شیعہ سُنّی فسادات نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ جیسے اہلِ بیعت صرف شیعہ حضرات کے ہی ہیں کسی اورکے نہیں جبکہ سچ تویہ ہے کہ دینِ مبیں کا ہر پیروکار ببانگِ دہل یہ کہتا ہے کہ ”ہمارے ہیں حسین۔
چاہیے تو یہ تھا کہ تمام مسلمان مل کر خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ماہِ محرم کے آغاز ہی سے وجود پر کسی اَن دیکھے ، انجانے خوف کی سیاہ چادر تَن جاتی ہے اور لب اِن دعائوںسے تھر تھرانے لگتے ہیں کہ ربِ کردگار یہ دن خیریت سے گزار دے لیکن شایدہم اپنی بد اعمالیوں میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اب ہماری دعائیں بھی بارگاہِ ربی میں مستجاب نہیں ہوتیں اور کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے ۔جب حضرت امام حسین کے ساتھ والہانہ عقیدت سے ہر مسلمان کا دل معمور ہے تو پھرپتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو فساد برپا کرکے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ ایساقبیح فعل کرنے والے مسلمان تو خیر کیا ہونگے ، وہ تو لازمۂ انسانیت سے بھی خارج ہیں۔ اہلِ تشیع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حبّ ِ حسین میں حد سے گزر جاتے ہیں لیکن یہ بھی بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی خانوادۂ رسولۖ سے محبت بھی بے مثل ہے۔ کیا کسی کو کوئی شک ہے کہ اللہ ، یومِ آخرت ، انبیاء ، فرشتوں اور آسمانی کتب پر ایمان کے معاملے میں وہ تقاضۂ دینِ مبیں پہ پورے نہیں اُترتے۔
پھر اُن کو کافر کہہ کر فساد بپا کرنا کس دین کا درس اور کس شریعت کی پیروی ہے؟۔ رہا اہلِ تشیع کے خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا انداز تو یہ اُن کا اور اللہ کا معاملہ ہے اور کسی بندے کو ہر گزیہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اُن کو کافر قرار دے کر شَر پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن کیا کیجئے کہ کچھ دین کے ٹھیکے داروں نے پوری اُمتِ مسلمہ کو ایک ایسے مسلے میں اُلجھا کے رکھ دیا ہے جس کا دینِ مبیں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف اہلِ تشیع بھی اپنے مخالف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں پر بلا جھجک کفر کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں جس کی بنا پر نہ صرف شیعہ سُنّی فساد جنم لیتا ہے بلکہ پاکستان کی دشمن بیرونی قوتیں بھی اسی اختلاف کی آڑ لے کر وطنِ عزیز میں فساد برپا کرکے نفرت کی آگ بھڑکاتی رہتی ہیں۔
وطنِ عزیز جس دَورِ ابتلاء میں مبتلا ہے اُس کا تقاضہ تو اخوت، محبت اور یگانگت ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ تشیع اور اہلِ سنّت کے بہت سے جید علماء اِس فساد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے صبح ومسا کوشاں رہتے ہیں لیکن اُنہی کی صفوں میں گھُسے فسادی پھر بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ جب حضرت امام حسین ہر مسلمان کے لیے انتہائی محترم ہیں اور ربّ ِ علیم وخبیر نے اعمال کے حساب کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے تو پھر ہمیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہم زمینی خُدا بن کر فیصلے کرتے پھریں۔ خیر کا تقاضہ تو یہی ہے کہ سبھی مسلمان فروعی مسائل میں اُلجھنے کی بجائے بیک آوازیہ کہیں کہ ‘ہمارے ہیں حسین۔