تحریر: سلیم سرمد میں فریدیات پر کام کرنے والی تمام نابغہء روزگار شخصیات کے نام تو نہیں گنوا سکتا، مگر فروغِ فریدیات کے حوالے سے وسیب کا ایک معتبر اور محترم نام جناب مجاہد جتوئی ہیں، وہ مجاہد جتوئی جن کا نام ذہن و زبان پہ آتے ہیں اذہان و قلوب احتراماََرکوع کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ سرائیکی زبان و ادب اور خاص کر فروغِ فریدیات کے حوالے سے ان کی خدمات کو کسی مضمون میں قلمبند کرنا ممکن نا ہے،انھوں نے کلامِ فرید کو ایک جامع، خوبصورت اور جدید تحقیقی وتفہیمی انداز میں” دیوانِ فرید باالتحقیق” کے نام سے مدون و مرتب کر کے ایک عظیم کانامہ سر انجام دیا ہے جو کہ روایت سے ہٹ کرسو فیصد جدید اسلوب میں تحقیقی و تجزیاتی لوازمات پر مشتمل ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ مجاہد جتوئی نے ”دیوان فرید بالتحقیق ”کو نقل در نقل،مذہبی و روحانی اور شخصی اعتقاد کے بجائے تعقل ،دلائل اور تحقیق کی بنیاد مرتب کر کے حقائق پر مبنی فریدیات اور تاریخ کی نقاب کشائی کی۔ ”دیوانِ فرید بالتحقیق” کی ترتیب و تدوین کے علاوہ آپ کئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں مطبوعہ کتب ؛
.1ایسا میں نے کیوں سوچا .2اطوارِ فرید .3سلک فریدی .4حیات المحبوب .5آ پہنتم جیندیں مکّے
6دیوان فرید با لتحقیق(جامع) جو کہ مجاہد جتوئی کی شبانہ روز کی محنت، جانفشانی اور تحقیقی عرق ریزی کی بدولت سات سال کے عرصے میں مکمل ہوا ۔ان کے علاوہ ان کے طبع شدہ ادبی مجلے ،رسائل اور مختلف اخبارات میں چھپنے والے مضامین بہت بڑے معلوماتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں ،مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ مجاہد جتوئی کی کئی کتب تکمیل اور اشاعت کے مراحل میں ہیں ۔ان کے علاوہ آپ یونیورسٹیوں کے طرف سے الاٹ شدہ مقالہ جات ،فریدیات پہ مبنی تحقیقی ،تنقیدی اور تجزیاتی موضوعات پہ بھی کام کر رہے ہیں۔
ذاتی تخلیقات و تصنیفات کے علاوہ مجاہد جتوئی کی فروغِ ادب کے حوالے سے کاوشیں ،کوششیں اور خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں انہوں نے فریدیات اور سرائیکی زبان و ادب کی ترویج وترقی کواپنا ،مقصد ،اپنامشن ،اپنافرض اوراوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے ۔اپنی زندگی کے بیشتر قیمتی سال اور مالی سرمایافریدیات اور سرائیکی زبان و ادب کے لئے خرچ کر دیے اور کسی ستائش و صلے کی پرواہ کئے بغیر مختلف محاذوں پر علم و ادب کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔
کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید لائبریری اور میوزیم کے انچارج اور نگہبان ہونے کے ناطے سارا انتظام و انصرام آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کی نگرانی و میزبانی میں اس علمی خزانے سے آئے روز سینکڑوں طلباء مستفید ہوتے ہیں۔اگر کوئی شاعر ادیب ،محقق، مورخ یا طالب علم فریدیات پہ یا سرائیکی زبان و ادب پہ یا اس سے ہٹ کر علم کی کسی بھی جہت پہ کام کرنا چاہے اور اس کے لئے اگر اسے خواجہ فرید لابریری سے استفادہ کرنا ہو تو مجاہد جتوئی ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مطلوبہ مواد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں ،اور ان کی طرف سے الاعلان کہا گیا ہے کہ کوئی طالب علم یا ریسرچر ،چاہے وہ ادب و ثقافت ،سیاسیات ،معاشیات یا کسی بھی عوامی خدمت کے شعبے یاکسی بھی علمی جہت پہ کام کرناچاہے تو ہماری خدمات حاضر ہیں ۔ان کی ادب پروری کا یہ عالم ہے کہ کوٹ مٹھن خواجہ فرید لائبریری کے علاوہ فیض آباد (خان پور،رحیم یار خان) میں راز تاجدار لائبریری کی صورت میں جو علمی خزانہ ان کے پاس محفوظ ہے سے بھی تشنگانِ علم کی پیاس بجھا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ شعر وادب ،ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لئے بزمِ رازکے زیرِاہتمام کچاری پروگرام ”کچار ”کا انعقاد بھی کرتے ہیں جس میں مختلف علمی و ادبی شخصیات کو مدعو کر کے ناصرف ان کی شخصیت و فن اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے بلکہ فروغِ ادب کی سعی بھی ہوتی ہے۔
مجاہد جتوئی کی یہ تمام کوششیں ،کاشیں اور قربانیاں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اپنے وسیب ،اپنی قوم کی فلاح و بہبود ،اپنے ثقافتی ورثے کی بقااور اپنی زبان اور علم و ادب کی ترقی کے لئے ہیں ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو لوگ معاشرے کی فلاح و بہبود ،ترقی ،خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں ،جوانسانوں کو مثبت سوچ عطا کرتے ہیں جو لوگوں کو ان کے حقوق اور شعور و آگہی سے نوازتے ہیں ،جو وسیب کے ناسوروںسرداروں، جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور استحصالی طبقے کے خلاف علم و آگہی کے ذریعے لوگوں میں شعور اجاگر کر کے ان کے خلاف جہاد پہ آمادہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کی راہیںان رو سیاہ قوتوں اور استحصالی طبقے نے ہر دور میں پرخار بنائی ہیں،مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی راہو ں میں روڑے اٹکائے گئے ۔مجاہد جتوئی بھی چونکہ علم و آگہی کی بدولت معاشرے کو بینائی ِ عقل ،شعور اور شناخت عطا کر رہے ہیں۔
لہٰذا ان کے راستے میں بھی استحصالی طبقے،نام نہاد عالموں ،ادیبوں اور دانشوروں نے کافی روڑے اٹکائے۔ ان کے کام پر بے جا تنقید و تنقیص کی اور بے جاا ختلاف رکھا ۔مگر مثبت سوچ کے حامل،عاجزی و انکساری کا پیکر مجاہد جتوئی نے ہمیشہ مثبت رویہ اور صحیح راستہ اپناتے ہوئے نا صرف اخلاقی اقدار پہ قائم رہے بلکہ تسلسل کے ساتھ اپنی،محنت ،لگن عزم ِ صمیم کے تحت اپنا تحقیقی و تخلیقی کام کرتے رہے اور کررہے ہیں ۔کیوں کہ آپ کہتے ہیں کہ بے جا مباحثے اور اور فضول کاموں میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان کا صحیح سمت اور مثبت انداز میں بھر پور استعمال کیا جائے ۔”دیوان ِ فرید بالتحقیق” کے تدوین کے بعد کچھ نام نہاد عالموں ،ادیبوں اور محْققوں نے ان کے کام پر اعتراضات اٹھائے تھے مگر آپ نے تحمل،متانت ،سنجیدگی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان کو خاموش کرا دیا۔مجاہد جتوئی کی تحریک اور معاونت کی بدولت 14زیادہ ایم فل کے مقالے لکھے جا چکے ہیں اور تا ہنوز ان کی ر ہنمائی اور معاونت میں ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کے پروگرام بھی ہو رہے ہیں ۔جو فریضہ کالجوں ،یونیورسٹیوں اور تدریسی درسگاہوں کاتھا وہ فریضہ اپنی اسطاعت کے مطابق جناب مجاہد جتوئی سرانجام دے رہے ہیں۔ مجاہد جتوئی علم کا ایک سمندر ہیں ،نوجوان نسل خصوصاََطالب علموں کو جتنا ہو سکے ان کے علم اور ان کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔مجاہد جتوئی اپنی نوجوان نسل سے علم و ادب کے حصول ،محنت ، لگن اور تحقیق و جستجو کی دعوت دیتے ہوئے اپنی نظم میں کچھ اس طرح مخاطب ہیں :
جدید دنیا دے ساڈے بالو اساڈی کئی گالھ نہ منیجو اساڈیاں گالھیں غلامیں والیاں اساڈی منطق اُجاڑ ذہنیں دی پیداوار اے اساڈیاں سوچاں اُدھاریاں سوچاں ،آواریاں سوچاں جڈاں وی سوچن دا وقت آوے تاں خود سوچیجو اساڈی کئی گالھ نہ منیجو اساڈا حاکم تے اوندے حربے ، اساڈا ملاں تے اوندی نیت ، اساڈا لیڈر تے اوندے تحفے اساڈی زندگی دا روگ رہ گئے انھاں دیاں قسماں تے وعدے دڑکے بھُکا تے کندھی دے وچ مریجو اساڈی کئی گالھ نہ منیجو اساڈے پیریں دے پھوکے پھاہکے اساڈے واعظ دیاں کوڑیا ں گالھیں اساڈے تاجر دے کھوٹے وٹے نویں پرانیاں سبھو کتاباں تے اپناں گھڑتُو خدا اساڈا اساکوں کئی شئے نئیں توڑ چاڑھیا تساں خود اپناں خدا گولیجو اساڈی کئی گالھ نہ منیجو اساڈے افکار خواب ساڈے ہمیش رہ گین عذاب ساڈے اساڈیاں کتھاں تھ ڈھنگ ساڈے اے ہیراں رانجھے تھے جھنگ ساڈے سبھو چپوڑیاں تے چنگ ساڈے دفن کریجو چا سنگ ساڈے جہان اپناں بیا وسیجو،تے رج ہنڈھیجو اساڈی کئی گالھ نہ منیجو جدید دنیا دے ساڈے بالو،
مجاہد جتوئی جیسی قابل شخصیات کسی بھی خطے اور قوم کے لئے نجات دہندہ ہوتی ہیں انہوں نے فروغِ ادب کی جو شمع روشن کی ہے خدا کرے یہ تا دیر ضوفشاںرہے ۔وہ یونہی معاشرے کی فلاح اور انسانیت کی ترقی کے لئے ہمیشہ بے لوث کام کرتے رہیں، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے ،ہمارے ادیبوں اور دانشوروں کو ان کا ساتھ دیناچاہیے ان کی تقلید کرنی چاہئے تا کہ ہم ایک روشن خیال اور با شعور قوم پیدا کر سکیں۔