لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کے ناظم اسامہ نصیر نے کہا ہے کہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اپنی غلیظ سیاست کے ذریعے صوبائی عصبیت اور علاقائی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں۔ جس میں نقصان ملک کا ہوگ۔ وائس چانسلر مجاہد کامران اور ایس پی اقبال ٹائون ڈاکٹر اقبال اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور طلبہ کو دبانے کے لئے معصوم بلوچ اور پختون طلبہ کا استعمال کر رہے ہیں۔طلبہ گروپوں میں تصادم میں رئیس الجامعہ ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنی شاطرانہ چالوں اور منفی پروپیگنڈے کے ذریعے اس میں اسلامی جمعیت طلبہ کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بے بنیاد اور زہر آلود پروپیگنڈا کر رہا ہے ۔ اپنی سیاست کے لئے بغض اور عداوت سے کام لیتے ہوئے نفرتوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔بلوچ اور پختون طلبہ میں جھگڑا کروانا بھی مجاہد کامران کی ایکسٹینشن گیم کا ایک حصہ ہے۔ اس تمام مہم میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے چند مشیرو وزرا درپردہ مجاہد کامران کی حمایت میں مصروف ہیں۔مجاہد کامران کے خلاف کرپشن ، بدعنوانی اور دیگر مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان پر پردہ ڈالنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں خانہ جنگی کی فضاء قائم کی گئی ہے۔طلبہ کو لڑا کر اور ان کے خون کی ہولی کھیل کر مجاہد کامران اپنی ملازمت میں توسیع کے راستے ہموار کر رہے ہیں۔
وزیر اعلی پنجاب نے اگر کرپٹ اور نفرتوں کے بیج بونے والے شخص کو رئیس الجامعہ بنایا تو یہ ملک و قوم کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے جھگڑے میں جلتی پہ تیل کا کردار ایس پی اقبال ٹائون ڈاکٹر اقبال کا بھی ہے جو یونیورسٹی میں خود فریق بن کر طلبہ میں دھونس جما رہا ہے۔ اپنے سرکل میں جرائم کی شرح میں بڑھتے ہوئے اضافے کو کنٹرول کرنے کی بجائے طلبہ کو کلاس رومز میں جا کر ڈرا دھمکا رہا ہے۔اگر۔ وزیر اعلیٰ اس سارے واقعے پر مجاہد کامران اور ڈاکٹر اقبال کو شاباش دینے کی بجائے ان کے خطرناک ارادوں پر نظر رکھیں اور لاہور کو کسی بھی بڑے تصادم سے بچانے کے لئے اقدامات کریں اور قوم کو ان شرپسندوں سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
ایس پی اقبال ٹائون اور وائس چانسلر جمعیت کی خاموشی کو ان کی کمزوری نہ سمجھیں ۔ جمعیت علاقائی تعصب اور صوبائی عصبیت کے خلاف ہے اس کے طلبہ ملک کے کونے کونے میں اپنی علمی سرگرمیوں کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اگر بروقت کارروائی نہ کی اور ان لٹیروں کو لگام نہ ڈالی تو بعد میں حالات قابو میں نہیں رہیں گے جس کی ساری ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوگی۔