مختاراں مائی کا جھوٹ

Mukhtaran Mai

Mukhtaran Mai

پاکستان یا دنیا کے کسی کونے میں کسی عورت کے ساتھ زیادتی کی کو ئی بھی خبر آئے مختاراں مائی کا نام میڈیا میں گونجنے لگتا ہے۔ ابھی بھارت میں ایک لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی خبر آئی اور اس کے بعد مظفر گڑھ میں پھر پنچائیت کے ذریعے زیادتی کر کے انتقام لینے کا جھوٹ سامنے آیا، مختاراں مائی منظر عام پر تھی، جو 10 سال کی طویل و صبر آزما سماعت کے بعدمبنی بر حق فیصلے پر اعلیٰ ترین عدلیہ کو مطعون کر رہی ہے اور سب خاموش ہیں۔ 2002 میں مختاراں مائی کی کہانی سامنے کیا آئی، ساری دنیا اسی کے ساتھ ہو گئی اور اس کے خلاف کچھ بھی ماننے سے انکا ر کر دیا گیا۔

یہ مقدمہ جس نے ساری دنیا میں 13سال بعد بھی پاکستان کو پریشان اور بدنام کر رکھا ہے، کا آغاز 22 جون 2002ء کی شام سے ہوتا ہے۔ اس شام مختاراں مائی کے گجر خاندان اور مستوئی خاندان میں جھگڑا ہوا۔ اس جھگڑے سے پہلے، دن کے وقت مختاراں کے بھائی عبدالشکور عرف شکورے کو عمر قید کی سزا پانے والے ملزم عبدالخالق کی بہن سلمہ کے ساتھ انتہائی قابل اعتراض حالت میں پکڑا گیا۔ اسے پکڑنے والوں میں عبد الخالق بھی شامل تھا ۔معاملہ تھانے تک پہنچا ،تو صلح صفائی کی کوشش شروع ہوئی۔ طے یہ پایا کہ مختاراں جو کہ طلاق یافتہ تھی، کی شادی عبدالخالق سے کر دی جائے اور مختاراں کا باپ فریق مخالف کو 10 ہزار روپے بھی ادا کرے اور شکورے کی شادی سلمہ سے کی جائے۔ عہد پورا کرتے ہوئے گواہوں کی موجودگی میں مختاراں کے چچامولوی عبدالخالق نے مختاراں نکاح پڑھا دیا (لیکن یہ نکاح لکھا نہ جا سکا)۔ اسی بات پر شکورا رہا ہو کر آ گیا۔ لیکن مختاراں کے خاندان نے 10 ہزار روپے دینے سے انکار کیا۔ دوسری طرف عبدالخالق کو بھی یہ معاہدہ پسند نہیں تھا، اسی پر جھگڑا شروع ہوا اور 22 جون ہفتہ کی ہی شام دونوں خاندان لڑ پڑے۔ اس موقع پر مختاراں بھی موجود تھی۔ لیکن معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد عبدالخالق نے 27 جون کو بہن کا نکاح ماموں کے بیٹے سے کر کے رخصتی بھی کر دی۔

اگلے جمعہ یعنی 28 جون کو مختاراں کے چچا مولوی عبدالرزاق نے مقامی مسجد میں خطبہ جمعہ کے دوران واویلا کیا کہ 7 دن پہلے جو جھگڑا ہوا تھا۔ اس میں مختاراں کے ساتھ سو ڈیڑھ سو لوگوں کی موجودگی میں ”پنچایت ”کے حکم پر اجتماعی طور پر زیادتی کی گئی ہے۔ اس کے جھوٹے واویلے کی وجہ یہ تھی کہ عبدالخالق نے نہ صرف اس کا پڑھایا نکاح قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ بہن کی شادی بھی معاہدے کے خلاف دوسری جگہ کر دی تھی۔ ساتھ ہی مولوی عبدالرزاق نے خبر ایک مقامی صحافی کو دی جسے مقامی اخبار نے تین کالمی خبر کے طور پرچھاپ دیا۔

اگلے روز معاملہ تھانے پہنچا جہاں مولوی عبدالرزاق کے ہاتھ سے لکھی درخواست پر مختاراں مائی نے انگوٹھے لگا دیئے کیونکہ وہ اپنا نام تک لکھنے سے قاصر تھی اور اسے پتہ تک نہیں تھا کہ کاغذ پر کیا لکھا گیا ہے؟ خبر چھپنے سے ایف آئی آر درج ہوئی اور خبر مزید بڑی ہو کر قومی اخبارات اور عالمی میڈیا تک پہنچ گئی۔ 30 جون کو مختاراں کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا ،جس میں بے پناہ عالمی دبائو اور زبردست پراپیگنڈے کے نتیجے میں یہ بات لکھی گئی کہ مختاراں سے ایک شخص نے زیادتی کی ہے۔ رپورٹ پر جتوئی کی ایک عام لیڈی ڈاکٹر نے دستخط کر دیئے۔ مقدمہ عالمی بننے کی وجہ سے حکومت نے زبردست کارروائی شروع کی جس کے نتیجے میں 14 لوگ گرفتار ہوئے۔ اسی دوران محمد شفیق ولد حضور بخش نامی ایک نوجوان جان بچانے کے لئے بھاگا تو دریائے سندھ میںڈوب کر مربھی گیا۔

گرفتار شدگان کے بارے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں 7 افراد ایسے تھے جن کے نام ایف آئی آر میں درج تک نہیں تھے۔ وہ لوگ اللہ دتہ ولدجان محمد، نذر ولد اللہ بخش، حضور بخش ولد جندوڈا، قاسم ولد جندوڈا، خلیل ولد غلام حسین، غلام حسین ولد جندوڈا اور اسلم ولد محمود تھے۔ گرفتار شدگان میں باپ بیٹا بھی شامل تھے، یعنی باپ اور بیٹا اس الزام میں پکڑے گئے کہ انہوں نے بھی اس اجتماعی زیادتی میں اکٹھے حصہ لیا ہے۔ گرفتار شدگان میں 8 واں ملزم محمدفیاض ولد کریم بخش بھی تھا۔ اس کا تعلق میروالا کے قریبی گائوں بیٹ رام پور سے تھا ۔یہ ملزم گرفتاری کے وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا لیکن کمال حیرت کی بات کہ جس محمدفیاض کا نام ایف آئی آر میں تھا، اس کا تعلق میروالا سے تھا، جو آخر وقت نہیں پکڑا گیا۔ گرفتار شدگان میں چار سگے بھائی اور ان کا سگا بھانجا عبدالخالق بھی شامل تھا۔یعنی4 سگے بھائیوں پر مل کر مختاراں سے اجتماعی زیادتی کا الزام عائد ہوا۔

یکم ستمبر 2002ء کو رات کے پونے ایک بجے ڈیرہ غازی خان کی انسداد دہشت گردی کی جس عدالت نے پہلا فیصلہ سنایا تھا، نے بھی 8 افراد کو بری کیاتھا لیکن وہ بھی کئی برس بعد جا کر رہا ہوئے۔ ان لوگوں کودیگر پانچ بے گناہوں کے ساتھ6 جون 2005ء کو لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ نے 50، 50 ہزار کے مچلکوں کے بدلے رہائی کا حکم دیا تھا لیکن بیشترلوگ اتنے غریب تھے کہ وہ مچلکے نہ بھر سکے اور جیلوں میں ہی پڑے رہے اور مقدمہ آگے چل پڑا۔ ان بے گناہوں کے بارے میں نہ صرف مختاراں مائی بلکہ اس کے عالمی شہرت یافتہ وکلاء کے پینل اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سبھی بخوبی آگاہ تھے لیکن ان کی مدد کی کبھی کسی نے کوئی بات نہ کی۔ آخر کیوں…؟ اس کا سوال کا جواب بھی کوئی نہیں دیتا۔

High Court

High Court

مختاراں مائی کی جو میڈیکل رپورٹ بنی ، اس میں ڈی این اے ٹیسٹ شامل نہیں تھا۔ حالانکہ ہائیکورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق اجتماعی زیادتی کے واقعہ میںیہی ٹیسٹ اصل بنیاد ہے۔ ایک اور حقیقت جس کا کوئی شخص انکار نہیں کرتا کہ جھگڑا 22 جون 2002 کو ہوا ۔ایف آئی آر 29 جون 2002 اور میڈیکل ٹیسٹ 30 جون 2002کو ہوا… آخر کیوں…؟ اتنے دن مختاراں اور اس کا خاندان کہاں تھا؟ اگر انہیں مستو ئی قبیلے کا خوف تھا تو آٹھ نو دن بعد یہ خوف اچانک کیسے ختم ہو گیا؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس حوالے سے کوئی ماہر ڈاکٹر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ 9دن بعدزیادتی کی رپورٹ مثبت آ سکتی ہے۔ دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ اس لحاظ سے بھی یہ رپورٹ انتہائی مشکوک تھی لیکن اس معمولی سے شک پر بھی پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے ملزم عبدالخالق کو عمر قید سنائی کیونکہ یہ بات عدالت کو بتائی گئی تھی کہ عبدالخالق کا نکاح مختاراں کے ساتھ پڑھایا گیا تھا ،اگرچہ اسے لکھا نہیں گیا لیکن جو زیادتی بے شک نامکمل اور ادھوری رپورٹ سے ہی ثابت ہوئی، سمجھا گیا کہ وہ لازماً عبدالخالق نے ہی کی ہو گی کیونکہ وہ اسے جائز بیوی سمجھتا تھا۔

اس مقدمے میںپنچائیت کے حکم پرا جتماعی زیادتی کا ہنگامہ آج بھی سنا جاتا ہے حالانکہ سارے علاقے میں ایک بھی گواہی ایسی نہیں جس سے یہ ثبوت ملتا ہو کہ سرے سے پنچایت بیٹھی بھی تھی ۔مختاراں مائی اپنے بیانات میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتی ہے کہ اسے مستوئی قبیلہ سے خطرہ ہے، حالانکہ یہ لوگ اتنے غریب اور درماندہ ہیں کہ 27 اپریل 2011 کی شب جب ملتان جیل سے 13 بے گناہوںکو رہا کیا گیا تو انہیں لینے کے لئے جیل کے باہر کوئی موجود ہی نہیں تھا کیونکہ ان کے لواحقین کرائے کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں لینے کے لئے آ ہی نہیںسکے اور رہا ہونے والوں کو ملتان کے ایک پولیس آفیسر نے فی سبیل اللہ کرائے کے پیسے دیکرروانہ کیا۔سپریم کورٹ میں یہ چھ سال مقدمہ چلا لیکن مستوئی خاندان کا کوئی ایک فرد ایک دفعہ بھی مقدمہ کی سماعت کے لئے اسلام آباد نہ جا سکا۔

مختاراں کے گھر سے متصل گھر مرکزی ملزم عبدالخالق کا ہے۔ اس گھر میں آج بھی بجلی نہیں ،بلکہ اس کے تین رشتہ داروں کا بھی یہی حال ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختاراں مائی ان کے گھروں میں کنکشن لگنے ہی نہیں دیتی ۔وکی لیکس نے بتایا تھاکہ مختاراں کاسگا بھائی حضوربخش اب علاقے کا”جگا” بن چکا ہے۔یہ بات سامنے آتے ہی مختاراں نے پھر جھوٹ بولتے ہوئے حضور بخش کو بھائی ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔

میر والا میںآج بھی منظر یہ ہے کہ ایک طرف مختاراں کی عالیشان کوٹھی اور اس کا وسیع کمپلیکس ہے جن میں کروڑوں مالیت کی گاڑیاں کھڑی اور آتی جاتی نظر آتی ہیں۔اس کی حفاظت کے لئے بڑی پولیس چوکی قائم ہے ۔ہر طرف دولت کی ریل پیل ہے تو دوسری طرف مخالف مستوئی خاندان کے مٹی کے گھروندوںمیں کیچڑ اور دھول میں لتھڑے، گندے کپڑے پہنے، ننگے پائوں آوارہ پھرتے بچے ہیں جنہیں مختاراں مائی کے سکولوں میں داخلے تو کجا اس کے علاقے کی طرف جانے کی بھی اجازت نہیں۔ فیض احمد جسے سرپنچ اور بہت بڑا جاگیردار کہا جاتا رہا، محض چند کنال زمین کا مالک ہے جبکہ دیگر لوگ 2 سے 3 کنال کی بھی بمشکل ملکیت نہیں رکھتے ۔اس مقدمے کے بعد میروالا کی دو مساجد مکمل طورپر ویران و شکستہ ہیں کیونکہ ان کے امام اور متولی بھی اجتماعی زیادتی کے الزام میں دس سال جیل میں پڑے رہے۔

22 جون 2002 سے شروع ہونے والی وہ بدنام زمانہ جھوٹی کہانی جس نے پاکستان کے لئے بے شمار مسائل کھڑے کئے، آج بھی ان سوالوں کے جواب چاہتی ہے، جو کوئی نہیں دیتا۔ مظفر گڑھ غیرملکی این جی اوز کا گڑھ بن چکا ہے جہاں 200 سے زائد این جی اوز رجسٹرڈ ہیں ۔یہ این جی اوز کیا کررہی ہیں؟ یہ کوئی نہیںپوچھتا۔ مختاراں مائی کو اس مقدمے کے بعد یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی دنیا نے بے پناہ مقبولیت دی۔ اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداران اس کا استقبال کرتے۔ کہیں اسے شہریتیں دی جاتیں، کہیں ایوارڈ، اعزازات اور بھاری رقوم تو کہیں اسے اعلیٰ اعزازی بشمول ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔ انہی ممالک میں اس پر کتابیں لکھی گئیں، فلمیں تیار ہوئیں۔اسے دنیا کی ْ”عظیم خواتین” کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

دوسری طرف یہ سوال آج بھی تشنہ ہے کہ پاکستان و پاکستانی معاشرے کو بدنام کرنے و الے وہ لوگ جو اصل میں بغاوت اور غداری کے مرتکب ہوئے ،ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو پائی؟تاکہ آئندہ کوئی ایسا جھوٹ نہ بولتا۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین