پاکستان کے وجود سے قبل مسلم ریاست الگ بنانے کی چاہت رکھنے والے ایک تھے۔ جس میں حسینہ واجد کے اباو اجداد بھی شامل تھے۔ تو دوسری طرف عبدالقادر ملا کے اباؤاجداد بھی شامل تھے۔ بہت سی جانی اور مالی قربانیاں دے کر پاکستان کو حاصل کیا گیا۔ جس کے دو حصے تھے دونوں حصوں میںسب سے بڑی دشواری زمینی راستوں کا نہ ہونا تھا اور اسی دشواری کے سبب دونوں حصوں کی عوام کو اکٹھے مل بیٹھنے کابھی زیادہ موقع نہ مل سکا۔ کیونکہ ملک ایک سے دوسرے حصہ میںجانے کہ لیے عوام کو بحری یاہوائی سفر کرنا پڑتا تھا۔اوراس وجہ کا پاکستان دشمن بھارت کو موقع مل گیا بھارت نے اپنی چال کا بیج ان دونوں حصوں کی عوام میں بو دیا۔ اور اس نے مشرقی پاکستانیوںکے دلوںمیں مغربی پاکستانیوں کے لیے نفرتیں بھرنا شروع کر دیں۔ اور دونوں حصوں میں بسنے والے سیاسی اکابرین نے بھی کوئی زیادہ سمجھداری سے کام نہ لیا۔
مشرقی پاکستان کے سیاسی اکابرین نے بھی مغربی پاکستان سے زیادہ بھارت کواپنے گلے لگانہ مناسب سمجھا۔ اور مغربی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک شروع کردی گئی۔ جماعت اسلامی اس علیحدگی تحریک کے خلاف تھی ۔جماعت اسلامی ملک کے دونوں حصوں میں پاکستان آرمی کاساتھ دے رہی تھی کہ کسی طریقہ سے ملکی تقسیم کو روکا جاسکے ۔کسی بھی طرح بھارت کی جانب سے لگائی گئی نفرت کی فصل جلادی جائے۔ لیکن عوامی لیگ اورمکتی باہنی کے لوگوں نے بھارت کی شہ پر ملک کو تقسیم کرنے کی تھانی ہوئی تھی کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرکے ہی دم لینا ہے اوراسی لیے کبھی اور دو بنگالی کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا تو کبھی ملکی اقتدار کو وجہ بنا لیا جاتا۔
مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے مشرقی پاکستان نے بھارت کے ساتھ ملکر 13 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج کے خیلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ پاکستانی فوج اپنی بھرپورکوششوںکے باوجود ہمت ہار گئی کیوںکہ پاکستانی فوج کو ایک طرف نہیںبلکہ دواطراف سے حملے کا سامنا تھا۔ ایک بھارتی فوج کی طرف سے تو دوسرا بنگالی جوانوں کی طرف سے۔ اور بالاآخر 16دسمبر 1971 کو 13 روزکی جنگ کے بعد پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور مشرقی پاکستان ایک الگ ریاست بن گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے سامنے ظاہر ہوا۔
بنگلہ دیش کے بننے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی حکومت میںیہ معاہدہ ہوا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے بسنے والوںپرجنگی مقدمات نہیں کھولیں گی ۔بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت جماعت اسلامی ہی وہ جماعت تھی جو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی ۔اور ہرممکن کوشش کررہی تھی کہ کسی بھی طریقہ سے پاکستا ن علیحدہ نہ ہو۔اور بنگلہ دیش کی عوام کو ہرتحریک کے ذریعے آگاہ کرنیکی کوشش کررہی تھی کہ مجیب الرًحمن شامی بھارتی ایجنٹ ہے اور پاکستانی فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے جماعت اسلامی کے گیت گاتے نہ تھکتے تھے۔
Hasina Wajid
بنگلہ دیش ایک خود مختارریاست بھی بن گیا۔اور اس کی اپنی آزاد حکومت قائم ہو گئی۔ وقت گزرتا گیا بنگلہ دیش میں مختلف حکومتیں بدلتی رہیں او رحالات بھی بدلتے رہے اور 1996 میں الیکشن کا دور آگیا۔ ان الیکشن میں حسینہ واجد کی پارٹی کو اقتدار میں آنے کے لیے ایک بھاری سپورٹ کی ضرورت تھی۔ اور جماعت اسلامی کی ہمایت سے حسینہ واجد کی پارٹی اقتدار میں آئی۔ لیکن 1996 سے لیکر 2001 تک حسینہ واجد کی حکومت ملکی ترقی کے لیے کوئی قابل قدر خدمات نہ پیش کرسکی اور جماعت اسلامی بھی اس بات کو بخوبی جان چکی تھی کہ عوام اس حکومت کو مزید اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
اور 2001 کے الیکشن میں عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی میں مقابلہ ہوا۔ اور اس دفعہ جماعت اسلامی نے نیشنل پارٹی کو سپورٹ کیااور نیشنل پارٹی کو ملکی اقتدا مل گیا۔اور بس جماعت اسلامی کا نیشنل پارٹی کو سپورٹ کرنا ہی تھا کہ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی دشمن بن گئی اورحسینہ واجدیہ بھی بھول گئی کہ جماعت اسلامی ان کی ماضی کی اتحادی بھی تھی۔ اور عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے خلاف پڑا پیگنڈہ شروع کر کے انتقامی سیاست کا آغاز کر دیا۔ کبھی جماعت اسلامی کے لیڈروں کو پاکستانی ایجنٹ ہونے کا دعوی کیا جاتا تو کبھی دہشتگرد تنظیم کہا جاتا۔ اور بد قسمتی سے ایک بار پھر بنگلہ دیش کی معصوم عوام 2009 کے الیکشن میںعوامی لیگ پر اعتماد کر بیٹھی اورحسینہ واجد کی حکومت برسر اقتدار آئی۔ حسینہ واجداوراسکی حکومت نے برسراقتدارآتے ہی جماعت اسلامی کے خلاف انتقامی سیاست کاآغاز شروع کر دیا۔
اور اسکے مشہور لیڈروں پر پاکستانی ایجنٹ ،دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات کر کے جیلوں میں ڈال دیااور یہ سب حسینہ واجد نے اپنے بھارتی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے کیا۔ انہی مشہور لیڈروں میں عبدالقادر ملا بھی شامل تھے جن کو حسینہ واجد کی طرف سے بنائے گئے ٹربیونل نے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ (ایک ایسا ٹربیونل جس پر پر عالمی حقوق کی تنظیمیں بہت سے سوال اٹھا چکی ہیں)لیکن حسینہ واجد عبدالقادر ملا کو دی گئی عمر قید کی سزا سے بھی خوش نہ ہوئی تو عدلیہ کے ساتھ مل کران کی عمر قیدکوسزاے موت میں تبدیل کر وادیا۔اور انکو پھانسی دیدی گئی۔ قارئین حسینہ واجد نے نیشنل پارٹی کی خالدہ ضیاء کے ساتھ موجود سیاسی لڑائی کی بھینٹ ایک بزرگ سیاستدان کو چڑھا کر ملک میں آگ لگا دی جس کے سبب ملک میں حکومت مخالف ایک ایسی تحریک شروع ہوئی جو شاید اب بہت سے مسائل کو جنم دیدے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد ابتک بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں میں 40 کے قریب لوگ مرچکے ہیں۔
لیکن قارئین افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ملا عبدالقادر جو 1971 کی جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ تھا اس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سزائے موت دیدی جاتی ہے اور چند ایک لوگوں کے علاوہ ہمارے تمام حکمرانوں کو سانپ سونگھ جاتاہے ہم کہتے ہیںکہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے ہمار ے حکمرانوں میں سوائے چوہدری نثار کے کسی بھی حکمران کو عبدالقادر ملا کی پھانسی پر تعزیتی بیان دینا بھی مناسب نہیں لگتا۔ اور قومی اسمبلی میں بھی عبدالقادر ملا کی دعا مغفرت شیخ رشید کے یاد کروانے پرہوتی ہے ہمارے حکمران عالمی دنیا کویہ کیوں نہیں بتانے کے اگرجماعت اسلامی غدارتھی تو 1996 میں حسینہ واجد نے اسکے ساتھ اتحاد کیوں کیا۔ پاکستان کے حکمران وقت کی یہ ذ مہ داری بنتی ہے ملاعبدالقادراوراسکے ساتھیوں کے1971میں پاک آری کے شانہ بشانہ چلنے والوں کے احسان کے بدلے ہی عالمی برادری کے سامنے ملا عبدالقادر کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آواز بلند کریں۔