ملا عمر مجاہد اسلام یا دہشت گرد ؟

Mullah Umar

Mullah Umar

ملا محمد عمر افغانستان کی طالبان تحریک کے رہنماء 1996ء سے 2001 تک افغانستان کے حکمران رہے۔ پھر امریکی و نیٹو افواج نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس وقت وہ امریکی و نیٹو کے خلاف گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ ابتدائی زندگی: ملامحمد عمر 1959ء افغانستان میں پیدا ہوئے اور ان کی ایک آنکھ ختم ہو گئی۔ زاتی زندگی: بحیثیت حکمران انھوں افغانستان میں امن قائم کیا اور منشیات کا خاتمہ کیا۔ یہ وہ کام ہیں جو ان کے علاوہ اور کوئی نہ کر سکا۔ یاد رہے کہ طالبان کابل پر قبضے کے ایک سال بعد بامیان پر قبضہ کر پائے تھے۔ملامحمد عمر نے بہت کم انٹرویو دیئے۔ اور ان کی زاتی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لئے ان کا نام ایک عظیم حریت پسند رہنماء کے طور پر یاد رہے گا۔ ملا محمد عمر کی زندگی افغانستان اور افغانستان کی سیاست میں 1979 کا سن کافی اہمیت رکھتا ہے۔

اسی برس ایک طرف تو افغانستان کی پڑوسی ملک ایران میں امام خمینی کے زیر قیادت اسلامی انقلاب آتا ہے اور مغربی زرائع ابلاغ میں لفظ فنڈا مینٹلزم یعنی قدامت پرستی پہلی دفعہ سنائی دیتا ہے۔ دوسری طرف روسی افواج افغانستان میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ سرد جنگ کا دور ہے۔ مغربی مملک بالخصوص امریکہ پاکستان کے سہارے کمیونسٹ افواج کے خلاف افغانستان میں جنگجوؤں کی امداد کرتے ہیں۔ یہ جنگجو مجاہدین کہلاتے ہیں انہیں میں بیس برس کا ایک نوجوان شامل ہے۔ اس کا نام محمد عمر ہے۔ روس کی واپسی: 1989ء میں روسی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد ملا محمد عمر اپنے گاؤں واپس چلا جاتا ہے۔ جہاں وہ مدرسے میں تعلیم و تربیت میں مصروف ہو جاتا ہے اور مقامی مسجد میں نماز پڑھاتا ہے۔ بظاہر وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی مقصود ہے۔

Russian Forces

Russian Forces

روسی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں لاقانونیت کا دور ہو جاتا ہے۔ کل کے مجاہدین اب شر پسندی پر اتر آتے تھے۔ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کی من مانی تھی۔ کہیں عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی تھی تو کہیں مسافروں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ افغانستان کی سڑکوں پر ظلم و ستم کرنے والوں نے چیک پوسٹیں بنا رکھیں تھیں۔ آج کا ملا محمد عمر نے اسی ماحول میں جنم لیا۔ سوچ میں تبدیلی: یہاں پر یاد دہانی ضروری ہے کہ 1989 ء میں روسی افواج کی واپسی سے 1994ء ملا محمد عمر اپنے گاؤں میں محدود تھے۔ لیکن 1994ء میں ہونے والا ایک واقعہ ملا محمد عمر کو افغانستان کی سیاست میں جھونک دیتا ہے۔ ا ن کو یہ خبر ملتی ہے کہ کچھ شر پسند عناصر نے گاؤں کے لڑکیوں کو اغوا کر لیا ہے۔ ان کی اجتماعی عصمت دری کی خبر سن کر ملا محمد عمر اپنے چند طالب علموں کو جمع کرتے ہیں اور ان لڑکیوں کی جان بچاتے ہیں۔ ان کی یہی ساتھی بعد میں چل کر طالبان کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔

دوسرا واقعہ جس نے ملا محمد عمر کو طالبان کی سر براہی کیلئے مجبور کر دیا وہ یہ کہ دو سابق جنگجوؤں نے قندھار کے مرکز میں ایک خوبصورت لڑکے کیلئے ٹینکوں سے جنگ لڑی۔ لاقانونیت کے اس ماحول کیوجہ سے ملا محمد عمر نے طالبان کو منعظم کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اور پیلی دفعہ ان کی ضرورت پاکستان کو اس وقت پڑی جب پاکستانی ٹرکوں کے ایک قافلے کو مقامی جنگجوؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ ٹرکوں کا یہ قافلہ افغانستان کے زریعے وسطی ایشیا کیلئے ایک تجارتی راہ کی تلاش میں تھا۔ بعد میں ملا محمد عمر کی حمایت سے ٹرکوں کو چھڑا لیا گیا۔

کابل پر قبضہ ملا محمد عمر کی قیادت میں ہی پاکستان اور عربوں کی مدد سے طالبان نے 1996ء میں کابل پر قبضہ کر لیا۔ اور افغانستان کو اسلامی امارات قرار دیکر ملا محمد عمر کو امیر المومنین بنا دیا گیا۔ جلد ہی طالبان نے افغانستان کے نوے فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ افغانستان پر گزشتہ بائیس برسوں سے پانچ برس طالبان کا قبضہ رہا۔ تقریباََ سات برس لاقانونیت کی نظر تھے اور دس برس افواج قابض تھے۔

حلیہ اور شخصیت :ملا محمد عمر آج بھی کسانوں کی بولی بولتے ہیں۔ ایک آنکھ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار چشمہ بھی لگا لیا کرتے ہیں۔ اور تفریح کے لئے اکثر اپنے دوست اسامہ بن لادن کے ہمراہ مچھلی کی شکار کیا کرتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی چار بیویاں اور آٹھ یا نو بچے بھی ہیں۔ ان کے گھر پر 1999ء میں بم سے ایک حملہ کیا گیا جس میں ان کا گھر تباہ اور ان کے دو بھائی اور ان کی پہلی بیوی سے تین بچے بھی شہید ہو گئے۔

Osama Bin Laden

Osama Bin Laden

اسامہ بن لادن اور ملامحمد عمر اگرچہ مغربی میڈیا اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر کی سیاست میں زیادہ تفریق نہیں کرتے لیکن یہ بات اہم ہے کہ اسامہ بن لادن زاتی طور پر مغربی ممالک کیخلاف لڑنا چاہتے تھے۔ جبکہ ملامحمد عمر نے عالمی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ انہوں نے اپنا پہلا غیر ملکی ریڈیو انٹرویو بی بی سی کی پشتو سروس کو 25 فبروری 1998ء کو دیا۔ ملا محمد عمر صرف ایک دفعہ افغانستان سے گئے ہیں۔ اور یہ کہ تب پیش آیا جب روسی افواج کیخلاف لڑتے وقت ان کی ایک آنکھ میں چوٹ لگی تھی۔ اور انہیں پاکستان آنا پڑا جہاں عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کے ڈاکٹروں نے ان کی آنکھ کا آپریشن کیا۔ وہ آج بھی صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔

افغانستان پر امریکہ قبضے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ملا محمد عمر آج بتک رو پوش ہیں ان کے آیڈیو بیانات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان کے متعلق آج تک کوئی نہیں جان سکا کہ وہ کہاں ہیں ؟ دیکھا جائے تو امریکہ ہی اصل دہشت گرد ہے جس کے ساتھ پاکستانی ناپاک حکمران ملے ہوئے ہیں۔ ملا محمد عمر طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں ایک ثبوت ہے کہ اس نے خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروق کی دور کی یاد تازہ کر دی۔ ہزاروں سال جنگ میں گرفتار افغانستان نے طالبان کے دور حکومت کے پانچ سال بہت امن ترقی اور خوشحالی سے گزاری ہے۔

یہ اسلامی نظام ِ حکومت امریکہ سے برداشت نہیں ہوا جس نے پاکستان کے وقت کے ناپاک حکمران پرویز مشرف کے ساتھ افغان جنگ شروع کر دی جس سے پاکستان آ ج تک عذاب میں مبتلا۔ افغانستا ن تو جل رہا ہے مگر پاکستان کی وجہ پوری عالم اسلام بھی انتہائی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے بہتری میں ہے کہ ملا عمر جیسے حکمرانوں کواپنا امیر المومنین منتخب کریں ورنہ اسی طرح جلتے رہیں گے۔

Asif Yaseen

Asif Yaseen

تحریر : آصف یٰسین لانگو
03003802786