ملتان (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی شہر ملتان کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک دن میں بارہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے چھ ارکان میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد ڈاکٹروں کی ملکی تنظیموں نے اظہارِ تشویش کرتے ہوئے اعلی سطحی چھان بین کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ملتان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر مسعود ہراج نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں نشتر ہسپتال ملتان کے ایک سو سے زائد ڈاکٹروں کے لیب ٹیسٹوں کی رپورٹ آنے والی ہے اور نئے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
پروفیسر مسعود ہراج نے بتایا کہ ہسپتال کے ذمہ دار اہلکاروں، ضلعی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے حکام کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود نشتر ہسپتال میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ضرورت کے مطابق حفاظتی کِٹس فراہم نہیں کی گئیں۔
ادھر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر محمد خضر حیات نے کہا ہے کہ نشتر ہسپتال میں پیش آنے والے واقعات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ حفاظتی ماسک صرف انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں کام کرنے والے طبی عملے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ہسپتال کے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے بھی جامع اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جن بارہ ڈاکٹروں اور چھ پیرا میڈیکل کارکنوں سمیت 18 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، وہ گردوں کے ایک ایسے مریض کےعلاج معالجے کی طبی کارروائیوں کا حصہ رہے تھے، جس میں بعد ازاں کورونا وائرس کی موجودگی ثابت ہو گئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسی ہسپتال کے برن وارڈ میں زیر علاج ایک سولہ سالہ بچے کا بھی کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔
ڈاکٹر پاشا کا کہنا تھا کہ جس حد تک ممکن ہے، ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ”ہم طبی عملے کی حفاظت کے لیے اپنائی گئی پالیسی کے تحت پہلے سے ہی ڈاکٹروں اور طبی عملے کی اسکریننگ کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ”کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹروں میں فی الحال اس مرض کی کوئی علامات نہیں ہیں۔ ہم نے ان کو طیب ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ منتقل کر دیا ہے۔ میں ان سے آج صبح بات بھی کی تھی اور ان کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر پاشا نے بتایا، ”ہم ایک مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ تاہم مورال کے اعتبار سے ہمارے عملے میں ملی جلی کیفیات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ بعض لوگ ان حالات کے باوجود کورونا وائرس کے خلاف بڑے جذبے سے ڈٹے ہوئے ہیں اور بعض فطری طور پر قدرے تشویش کا شکار ہیں۔‘‘
طبی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے نشتر ہسپتال کے ایک نوجوان ڈاکٹرسعید احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور وہ اس وقت کورونا سے متاثرہ دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ طیب ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ میں قرنطینہ میں ہیں۔
ڈاکٹر سعید چوہدری کہتے ہیں کہ نشتر ہسپتال میں ڈاکٹروں کے لیے کیے جانے والے حفاظتی انتظامات ناکافی ہیں، ”کئی ڈاکٹر اپنے خاندانوں کو کورونا سے بچانے کے لیے اپنے گھر نہیں جا رہے بلکہ وہ ہوسٹلز میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، تاکہ ان کے اہل خانہ محفوظ رہیں۔ ہم سب ڈاکٹروں کو کورونا وائرس ایسے مریضوں سے لگا، جن میں ابتدائی طور پر کوئی واضح علامات موجود نہیں تھیں اور وہ کورونا وارڈز میں بھی نہیں تھے۔‘‘
ڈاکٹر سعید چوہدری کہتے ہیں کہ نشتر ہسپتال ملتان میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد خدمات سرانجام دیتی ہے اور فوری طور پر کم از کم تین سو ڈاکٹروں کی اسکریننگ کی ضرورت ہے وگرنہ ان ڈاکٹروں کی ہسپتال میں موجودگی مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے الٹا ان میں اس وائرس کے پھیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعید چوہدری کا کہنا تھا کہ نشتر ہسپتال میں ڈاکٹروں کو فراہم کی جانے والی حفاظتی کِٹیں بھی غیر معیاری تھیں، ”ہمارے وارڈ میں ہماری انچارج ڈاکٹر نے اپنی جیب سے بلیک میں مہنگے داموں خرید کر این نائنٹی فائیو ماسک بعض ڈاکٹروں کو فراہم کیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت کے لیے مؤثر پالیسی بنا کر اس پر پوری طرح عمل درآمد کو یقینی بنائے۔‘‘
ادھر کراچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے بیس ارکان میں کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور صوبہ پنجاب دو ہزار چار سو پچیس مریضوں کے ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔