پاکستان کی غریب عوام کی شومئی قسمت یہ رہی ھے کہ گزشتہ سات دھائیوں میں مختلف حکومتیں برسر اقتدار آئیں مگر کم آمدنی والے لوگوں کو ذاتی چھت فراھم نہ کر سکیں محض فوٹو سیشن اور اخباری شہرت کی خاطر چند پلاٹوں سے اپنے اپنے منظور نظر اور کارکنان کو نوازا جس سے ان کی تشہیر تو ہو گئی مگر غرباء کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا۔ اگر ہم پس منظر میں جائیں تو یہاں ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ محض نعرہ ہی ثابت ہوا ،یہاں محمد علی جونیجو کی اپنی بستی اسکیم بھی ناکام رہی یہاں بے نظیر بھٹو کا ہاوْسنگ منصوبہ بھی کامیابی کا پروانہ حاصل نہ کر سکا۔ یہاں نوازشریف کا میرا گھر منصوبہ بھی نہ چل سکا، اور شہباز شریف کا آشیانہ ہائوسنگ منصوبہ بھی کرپشن کی نذر ہو گیا جو آج پوری قوم کے سامنے ھے۔ اور اب سات دہائیاں گزر جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعظم عمران خاں کا نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبہ شروع کیا گیا ھے مگر وہ بھی اپنے مقررہ اہداف حاصل کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا، اس منصوبہ کے افتتاح کے وقت تو موجودہ حکومت کے وزراء سمیت خود وزیراعظم نے بھی اس منصوبہ کی اہمیت بیان کر کے زمین و آسمان کے کلابے ملا دیئے تھے جس کے تحت 50 لاکھ گھر 5 سالوں میں مکمل کیئے جانے تھے اگر ان اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیا جائے اور پچاس لاکھ گھروں کو پانچ سالوں کے ایام پہ تقسیم کیا جائے (جن کے 1825 دن بنتے ہیں) تو سالانہ 10 لاکھ گھر اور ماہانہ 83333 گھر اور یومیہ 2700 گھر جبکہ فی گھنٹہ 115 گھر تعمیر ہوں تب جا کے یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں مکمل ہو گا جو کہ اس حکومت کیلئے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکنات میں سے ھے۔
کسی بھی ریاست میں حکومتیں اس وقت ہردلعزیز بنا کرتی ہیں اور دیرپا قائم رہا کرتی ہیں جب وہ اپنی رعایا کی محرومیوں کا ازالہ کرتی ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کا خیال کیا کرتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے مرغیاں انڈے اور بکریاں دینے کے بعد مفلس و نادار اور کم آمدنی والے لوگوں کیلیئے نیا پاکستان ہاوْسنگ اسکیم کا اعلان کیا تھا جسے کم آمدنی والے افراد کیلئے خصوصی تحفہ گردانا جا رہا تھا۔ ملتان میں بھی یہ منصوبہ جاری کیا گیا ھے جس کیلئے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیئے گئے ہیں جس میں گھروں کے حصول کیلئے 31 دسمبر تک درخواستیں وصول کی جائیں گی اور درخواست دہندگان سے مبلغ 10 ہزار روپے زر ضمانت کے طور پر وصول کیئے جائیں گے۔ یہ نیا پاکستان گھرانہ اسکیم ملتان کے مدنی چوک میں بنائی گئی ھے جہاں 23 کنال سے بھی زائد اراضی پر 384 فلیٹس تعمیر کیئے جارہے ہیں اور فی اپاٹمنٹ کی مالیت 29 لاکھ 85 ہزار روپیہ ہو گی جبکہ فی اپاٹمنٹ کا رقبہ 2 مرلہ یعنی 550 مربع فٹ ہوگا۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں نیا گھرانہ پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں گھر کے حصول کیلئے 6 لاکھ روپے ڈائون پیمنٹ کے طور پر پیشگی وصول کیئے جائیں گے جبکہ اس کی ماہانہ قسط 67 ہزار روپے ادا کرنا ہو گی اوریوں حکومت 2 مرلہ اپاٹمنٹ پر تعمیرات مکمل کر کے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کمائے گی۔یہی وجہ ھے کہ یہ منصوبہ کم آمدنی والے افراد کی دسترس سے دور ھے جن لوگوں کو روزی اور روٹی کے لالے پڑے ہوں اور گھر کا گزر بسر بمشکل ہو رہا ہو جن کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو وہ اس منصوبہ سے کیسے فیض یاب ہو سکیں گے اور اتنی بھاری قسط کہاں سے دیں گے۔
یہی وہ لمحہْ فکریہ ہے جو حکومتی مشینری کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کا عملی نمونہ ضلع لودھراں میں دیکھنے کو ملا جہاں قرعہ اندازی بھی لاوْنج کر دی گئی ھے جس سے نیا پاکستان گھرانہ اسکیم کیلئے درخواست دہندگان کی تعداد تقریباً 700 ھے اور وہاں ملتان کیے مقابلہ میں ڈائون پیمنٹ صرف 60 ہزار روپے ھے اور ماہانہ قسط 24 ہزار روپے ھے مگر وہاں بھی ابھی تک 25 لوگوں نے بنک میں رقم جمع کروائی ھے جس سے واضح معلوم ہوتا ھے کہ یہ نیا پاکستان گھرانہ منصوبہ غریبوں کیلئے نہیں بلکہ صاحب ثروت افراد کیلئے ھے۔ کیونکہ جو بندہ 15 ہزار روپے ماہانہ کما رہا ھو وہ 67 ہزار یا 24 ہزار روپے کس طرح ادا کرے گا۔ یوں نیا پاکستان گھرانہ اسکیم سے بڑے مگر مچھ فائدہ اٹھائیں گے اور اس ملک کی غریب عوام کے ذاتی گھر کا خواب کبھی بھی شرمندہْ تعبیر نہ ہو سکے گا اور وہ اپنی ذاتی چھت کے مالک بن کر کبھی بھی نہیں سو سکیں گے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ غریبوں کو ذاتی گھر سستے اور آسان اقساط پہ مہیا کرے اور پیشگی رقم میں بھی خاطر خواہ کمی کرے تاکہ کم آمدنی والے حضرات آسانی سے اس منصوبہ سے فائدہ اٹھا سکیں اور حکومت کے گن گا سکیں اور آئندہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر سکیں۔
یہ اک تلخ حقیقت ھے کہ پی ٹی آئی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ھے اس وقت سے لے کر تا حال حکومت نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر سفارتی اخلاقی دفاعی اور معاشی محاذوں پر فتوحات ضرور حاصل کی ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ موجودہ حکومت غریبوں کو ریلیف دینے میں اور مہنگائی کے جن کو قابوکرنے میں بالکل ناکام رہی ھے۔نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل رہے۔ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں جس سے ذخیرہ اندوز منافع کما رہے ہیں جبکہ غریب عوام کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ھے۔
حکومت وقت کو چاہیئے کہ وہ کمرشل جگہ کی بجائے اس منصوبہ کیلئے دیہی علاقوں میں جگہ مختص کرے اورحکومت پاکستان ملتان میں نیا گھرانہ منصوبہ کی ڈاوْن پیمنٹ میں بھی کمی لائے اور ماہانہ اقساط بھی انتہائی کم مقرر کریتاکہ کم آمدنی والے افراد آسانی سے اس مبصوبہ میں حصہ لے سکیں اور اپنی ذاتی چھت کے مالک بن کر اپنی ماندہ زندگی کے ایام گزار سکیں۔