ہر طبقہ ہائے فکراور زندگی کے ہر شعبہ میں مختلف مزاج کی شخصیات نظر آتی ہیں۔اسی طرح اردو ادب و صحافت کے میدان میں بھی مختلف مزاج ،فکر اور خیالات رکھنے والی شخصیات موجود ہیں ۔شعراء ہوں،صحافی یا ادباء اور لکھاری ان کا اپنا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے ،یہ زندگی کو اپنے الگ رویوں سے پرکھنے اور جانچنے کی سعی میں مگن رہتے ہیں۔تغیرات ِ زمانہ کو دیکھنے اور جاننے کا انداز ان کے ہاں دوسرے طبقات کے افراد سے یکسر نرالا ہوتا ہے ،یقینا یہی منفرد صلاحیت اور یہی عوامل ایک ادیب شاعر اور لکھاری کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔رضی الدین رضی ،مدینتہ الاولیاء ملتان کی ایک ایسی وضعدار اور طرحدار شخصیت ہیں کہ ان سے جو کوئی بھی ایک بار مل لیتا ہے وہ دوبار ہ ملنے کی خواہش ضرور کرتا ہے ۔وہ ایک محبت کرنے والے بے لوث آدمی ہیں ۔لکھنا پڑھنا، لکھنے پڑھنے والوں سے پیار کرنااور کتاب سے عشق ،گویا ان کی فطرت میں شامل ہے۔ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا متحرک رہنا ہے ۔وہ سست رو نہیں ہیں بلکہ ایک چلتی پھرتی تحریک ہیں ۔دوستوں سے شکوہ کرنے کی عادت انہیں بالکل نہیں اور نہ ہی دوستوں کا شکوہ ان کے مزاج کا حصہ ہے ۔ان کا اوڑھنا بچھوڑنا صرف لکھت پڑھت ہے۔ادبی تقاریب کا اہتمام کرنا ،مشاعروں میں شرکت کرنا ،ادیب شاعر اور اہل قلم دوستوں کے اعزاز میں محفلیں جمانا،اخبارات ورسائل کیلئے کالم اور مضامین تحریر کرنا، ان کا جنون ،مصروفیت اور ذوق یہی ہے۔ ان کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔
وہ ایک خوبصورت شاعر ،منجھے ہوئے صحافی اور صاحبِ اسلوب کالم نگار ہیں ۔وہ بہت سارے ان بڑے ناموں سے مختلف ہیں جو نظریات پر مفادات اور شہرت کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ان کا شمار ان نڈر جمہوریت پسند نظریاتی ادیبوں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اصولوں پر ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں ،بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں ،کبھی سرنڈر نہیں کرتے ۔رضی الدین رضی میرے محسن ہیں ۔میرے استادِ محترم ہیں ۔ان کی پرخلوص محبت اور بے لوث شفقت نے مرے ہاتھوں میں قلم تھمایا۔میں انہیں ہمیشہ اپنے لیے ایک مشفق استاد اور علمی رہنما کے طور پر دیکھتا ہوں ۔آج بھی ان کی ان گنت دعائیں ،بے ریا محبتیں اور بے پناہ چاہتیں میرے ساتھ ہیں ۔بلاشبہ ان کی بے نظیر محبتیں میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔
رضی الدین رضی کا اصل نام شیخ رضی الدین اوپل ہے لیکن وہ اپنے قلمی نام رضی الدین رضی سے معروف ہیں ۔انہوں نے 7مئی 1964 ء کو لائل پور میں آنکھ کھولی ۔ان کے والد کا نام شیخ ذکاء الدین اوپل ہے۔رضی الدین رضی وطنِ عزیز کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔انہوں نے میٹرک کا امتحان 1980 ء میں فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد سے پاس کیا ۔انٹرمیڈیٹ 1986ء میں لاہور سے جبکہ گریجویشن کی ڈگری انہوں نے 1990میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔ادب و صحافت کی دنیا میں انہوں نے 1983ء میں قدم رکھا اور ذوق و جنوں کا یہ سلسلہ او ر سفر تاحال جاری و ساری ہے۔وہ جن اخبارات میں بطور میگزین ایڈیٹر ،نیوز ایڈیٹراور رپورٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں ان میں ” روزنامہ جنگ، نوائے وقت ،دنیا ،سنگِ میل،اعلان ِحق، نوائے ملتان ،آفتاب،نیا دن اور قومی آواز “شامل ہیں۔
رضی الدین رضی انٹر نیٹ کے ساتھ جڑے اس جدید دور میں سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی خاصے متحرک نظر آتے ہیں ۔ملتان سے ” گرد و بیش” کے نام سے پہلی نیوز ویب سائٹ کے اجراء کا اعزاز بھی ان ہی کے حصہ میں آیا۔انٹرنیٹ پر سخن ور فورم کا قیام بھی ان کی ایک بے مثال کاوش ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ” دنیا پاکستان، ہم سب ،ہم شہری،لوک سجاگ اور انڈیپینڈڈ اردو” پر بلاگنگ و کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
روزنامہ جنگ ،روزنامہ نوائے وقت، ہفت روزہ “دید شنید” روزنامہ قومی آواز،روزنامہ جسارت ،روزنامہ سنگِ میل سمیت مختلف اخبارات و رسائل میں 1983ء سے اب تک سیاسی،سماجی،ادبی و ثقافتی موضوعات پر 2000کے لگ بھگ ان کے کالم اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
پرنٹ میڈیا کے علاوہ رضی الدین رضی الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتیں منوا چکے ہیں ۔وہ پی۔ٹی۔وی ،ریڈیو پاکسان،ایف ایم 93 ،وسیب ٹی وی،دنیا ٹی وی پر بطور پروڈیوسر،اینکر و تجزیہ نگار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔
رضی الدین رضی ایک ممتاز شاعر اور ایک بلند پایہ نثر نگار ہیں ۔اب تک انکی 18کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں ،جن میں ” جتنا دھڑکا ہوں تیرے سینے میں (شعری مجموعہ۔2015ئ) ،وابستگانِ ملتان (خاکے۔2015ء )،الگ (شعری مجموعہ۔2010ء )،وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا(رپورتاژ۔2009ئ)،اردو زبان و ادب بدلتے رجحانات (مضامین۔2009ئ)،رفتگانِ ملتان (شخصیت نگاری۔2006ئ)،آدھا سچ(مضامین۔2005ئ)،پاکستان۔اٹھاون سال۔3 ایڈیشن(تاریخ۔ 2005ئ) ،تمہیں دل میں بسانا ہے (شعری مجموعہ2003ئ)،ستارے مل نہیں سکتے (شعری مجموعہ۔1999ئ)،دن بدلیں گے جاناں(شعری مجموعہ۔ 1995ئ)، مہکتے حرف 5جلدیں (انتخاب نعت۔ 1994ئ)،وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا 5 ایڈیشن(انتخاب غزل۔1991ئ)،بے نظیر بھٹو -پرائم منسٹر ہائوس سے واپسی(سیاست۔1990ئ)،جنرل مرزا اسلم بیگ -مارشل لاء اور جمہوریت (سیاست۔ 1989ئ)،محبت کی نظمیں (انتخاب نظم۔ 1988ئ)، سخن ورانِ ملتان(تذکرہ و تاریخ ادبی بیٹھک۔2020ئ)،رفتگانِ ملتان (حصہ دوم-خاکے یادگاری۔2015ئ) شامل ہیں۔
رضی الدین رضی کی شخصیت و فن پر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی،وومن یونیورسٹی ملتان،یونیورسٹی آف سرگودھا سمیت مختلف جامعات میں ایم۔اے اور ایم۔فل کے چار تحقیقی مقالہ جات تحریر کیے جا چکے ہیں ۔ رضی الدین رضی کی شاعری میں انقلاب ،رومانس ،ہجراور امیدکا رنگ نمایاں ہے۔ یہ طغیانی تو کیا ہے ہم بھنور بھی پار کر جاتے جو ہوتا منتظر کوئی ہمارا دوسری جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں رستے میں ہی رہنا پڑے گا کہ ہم لوگوں کو رستہ د ے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ کیا کیا جھیلتا وہ بچھڑ کر کتنا اچھا رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا غرض تھی کون سے لمحے میں اور کیسا لگا بس یہ کافی تھا کہ میں ا ک شخص کو اچھا لگا پہلے تو تھک کر کہیں بس چھائوں میں بیٹھے رہے جب چلے تو پھر ہمارے پائوں کو رستہ لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اگر میری اجازت سے نہیں دیکھے گا راستہ تجھ کو محبت سے نہیں دیکھے گا اسکی تعبیر کبھی بھی نہ ملے گی تجھ کو خواب گر پوری صداقت سے نہیں دیکھے گا جس طرح میں نے تجھے دیکھا ہے چوری چوری کوئی بھی اتنی مشقت سے نہیں دیکھے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتنے پیار سے رکھا میرے سینے پہ ہاتھ جیسے اس کو بھی مرِے دل کا مکیں معلوم تھا
رضی الدین رضی کی تمام کی تمام شاعری خوبصورت اور پڑھنے کے لائق ہے۔وہ بڑی سے بڑی اور گہری سے گہری بات کو اپنے اشعار میں سادہ الفاظ میں بیان کرنے کے ہنر سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔رضی الدین رضی کی ہر نظم اور ہر غزل کو پڑھتے ہوئے قاری کے اندر اسے دوبارہ پڑھنے کی تشنگی رہ جاتی ہے، اس لیے بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ رضی الدین رضی کا کلام ان قادرالکلام شعراء میں شامل ہے کہ جنہیں بار بار پڑھنے سے بھی ان کے کلام سے جی نہیں بھرتا،اور پڑھنے والا اکتاہٹ اور بوریت محسوس نہیں کرتا۔مجموعی طور پر وہ مجھے “محبت کے شاعر” محسوس ہوئے ہیں۔وہ معاملاتِ حیات کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں اور زندگی سے منسلک ہر اک چیز کو محبت کے رنگ میں ڈھلتے ہوئے دیکھنا چاہتے۔
ہیں ۔انکی شاعری کا محور و مرکز ،مرکزی خیال اور مضمون انسان کو نفاق اور گمراہی کے چنگل سے بچا کر، امید ،روشنی اور محبت کے راستے پرچلتے ہوئے دیکھنے کا ایک حسیں خواب اور دلکش تصور ہے۔ان کی ایک نظم ” ستارے مل نہیں سکتے” کے عنوان سے ہے۔اس نظم کی مقبولیت نے رضی الدین رضی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ان کے اس خوبصورت شعر کے ساتھ اختتام: ایسی بے چہرگی ہے لوگوں میں سب کے سب آئینہ بناتے ہیں