ملتان ٹی ہاوس اور کیک

Multan

Multan

تحریر: مجید احمد جائی ۔۔ملتان
ملتان کے باسی مہمان نواز ہیں ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ آنے والے مہمان اور بڑی بڑی ہستیاں کہہ گئیں ہیں۔جب بھی مہمان باہر سے یا اندرون ملک سے یہاں آتے ہیں تو سر زمین اولیائے کے باسیوں کے چہروں پہ مسکراہٹ کے پھول کِھل اُٹھتے ہیں۔ملتان قدیمی اور میٹھا شہر ہے ۔قدیمی اس لئے کہ اِس کی تاریخ پانچ ہزار پرانی ہے اور محمد بن قاسم نے اِسے فتح بھی کیا۔میٹھا اس لئے کہ یہاں آم کثرت سے ہوتے ہیں ۔اُن کی مٹھاس اور لذت کا شیدئی امریکا بھی ہے ۔یہی امر ہے کہ یہاں کے باسیوں کے لہجوں میں میٹھاس ہے ۔یہاں کا سوہن حلوہ مشہور ہے اور جو یہاں آتے ہیں ملتان کی سوغات لے کر گھروں کو جاتے ہیں ۔یہاں تین ہزار سے زائد اولیائے اللہ کے مزارات ہیں ۔

مہمان نوازی کی بات ہو رہی تھی تویہاں کے باسی اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرکے خوش ہو تے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ ان کے گھر مہمان کے آئے ہیں۔جب اِنہی جذبوں سے سر شار حساس لوگ یعنی ادیب ہوں تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے ۔حساس دِل کے مالک یہ لوگ کتابوں میں غرق رہتے ہیں اور کتاب دوست کو اپنا دوست گردانتے ہیں۔۔یہاں ادبی محافل سجتی رہتی ہیں اور اِن کی روایت بہت پرانی ہے ۔پہلے پہل یہ محفلیں ہوٹلوں اور ذاتی بیٹھکوں میں ہوتی تھیںیا پارکوں میں بیٹھ کر اندر کی تشنگی
مٹائی جاتی تھی۔

اب جدّت آئی ،دُنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس ترقی کے اثرات ملتان کی سر زمین پر بھی ہوئے ہیں ۔ملتان میں ڈی سی اوزاہد سلیم گوندل صاحب آئے تو ادیبوں کے چہرے جگمگا اُٹھے ۔زاہد سلیم گوندل صاحب ادبی شخص ہیں اور ادب سے خاصا لگائو رکھتے ہیں ۔اُنہوں نے ادیبوں کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ”ملتان ٹی ہاوس”بنوایا۔یقینایہ ملتان کے ادیبوں کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔ہم اُن کے شکرگزار ہیں کہ اُنہوں نے ادیبو ں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے کرنے کی جستجو کی ہے اور ادبی دوستی کا عمدہ ثبوت بھی دیا ہے۔

Multan Tea House

Multan Tea House

ملتان ٹی ہاوس شاندار خوبصورت دو منزلہ عمارت ہے ۔اوپری منزل کوخوبصورت حال کی شکل دی گئی ہے جس میں ادبی اور دیگر تقریبات ہوتی ہیں ۔اس حال میں لگ بھگ 150کرسیاں سجائی گئی ہیں ۔خوبصورت اسٹیج بھی ہے۔پہلی منزل بیٹھک کا درجہ رکھتی ہے ۔ٹیبلوں کے اردگر د گرسیاں بچھائی گئیں ہیں اور کلٹین بھی ہے یہاں چائے اور بسکٹ مل جاتا ہے ۔ظاہر ہے آنے والے حضرات چائے بسکٹ تو لیں گے ہی ۔شاید اِسی لئے اس خوبصورت عمارت کو ”ٹی ہاوس”کا نام دیا گیا ہے ۔یہ سرکاری عمارت ہے ۔

نچلی منزل پہ ادیب لوگ گپ شپ کرتے ہیں اور اپنے مہمانوں کو بھی لاتے ہیں ۔ادیب ہواور چائے ،سگریٹ نہ ہو ،کیسے ہو سکتا ہے اس لئے چائے مل جاتی اور سگریٹ تو پاکٹ میں رہتی ہی ہے ۔یوں ادیب لوگ اپنے شغل پورے کرتے ہیں ۔دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور گپ شپ بھی ۔سب سے بڑی بات یہ کہ مل بیٹھنے کا موقع میسر آ جاتا ہے ۔اس کا سہرا جناب زاہد سلیم گوندل صاحب کو جاتا ہے۔

راقم ملتان ٹی ہاوس کا رکن ہے اور ممبر شب کے حصول کے لئے سولہ روپے ادا بھی کر چکا ہے ۔ممبر شب کی سہولت یہ ہوتی ہے کہ رکن اپنے ساتھ ایک مہمان کو چائے ڈسکاونٹ کے ساتھ پلا سکتا ہے ۔ پچھلے دِنوں ایک ادبی تقریب رضا ہال میں ہوئی ۔جس میں لاہور کے ادیب کافی تعداد میں شریک ہوئے ۔راقم بھی وہاں شریک تھا ۔تقریب کے بعد لاہور سے آنے والوں کو ملتان ٹی ہاوس کے وزٹ کی دعوت دی گئی ۔بہانہ یہ تھا کہ چائے کی چسکیوںسے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ گپ شب بھی ہو جائے گی ۔تقریب کے بعد دوست ملتان ٹی ہاوس پہنچے ۔ایک دوست کی دو دن قبل سالگرہ گزری تھی ۔رستے سے جناب محترم حسیب اعجاز عاشر صاحب نے کیک لیا اور سید بدر سعید کی سالگرہ کی سلبڑت ہو جائی گی کی غرض سے کیک کے مزے بھی لئے جائیں گے۔(اُن کا ارادہ تھا)۔

Cack

Cack

پندرہ لوگوں میں پانچ لوگ ملتان ٹی ہاوس کے ممبر تھے ۔جن میں راقم مجید احمد جائی ،رانا اعجاز حسین کالمسٹ، علی عمران ممتازقابل ذکر ہیں ۔ہم نے چائے کا آڈر دیا جو کہ فی کپ 40 کے حساب سے چارچ ہوا حالانکہ اچھے سے اچھے ہوٹل پر یہی کپ 20 روپے کا باآسانی مل جاتا ہے ۔ہمیں مشکل اُس وقت ہوئی جب انتظامیہ کے ایک فرد نے کیک اندر لانے سے ناراضگی کا اظہار کیا۔مہمانوں کے سامنے ہماری خوب جگ ہنسائی ہوئی اور ہم گرمی میں پانی پانی ہو گئے ۔موصوف کا کہنا تھا اس کے لئے آپ کو حال بُک کروانا چاہیے تھا ۔ہم نے تمام کہانی اُن کے گوش گوا ر کی مگر”آنگن ٹیڑھا ہی رہا”۔مہمانوں اور رکن ٹی ہاوس کے ساتھ سخت گیر رویہ سوالیہ نشان ہے ۔
خیر ارشد بخاری صاحب کی مہربانی کہ اُنہوں نے ماحول میں پُر امن فضا قائم رکھوائی ۔شجر لگانے والے تو چلے گئے اب مالی صاحب مالک بن بیٹھے ہیں ۔انتظامیہ کے سخت گیر رویے سے بہت سے مقامی ادیب پہلے بھی ٹی ہاوس سے کنارہ کشی اختیار کر گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی پریشانی سے دُوچار ہیں ۔اُس دن ہمارے مہمان کیا تاثرات لے کر گئے یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ہم امن کے شہر میں رہنے والے شرمندہ ضرور ہو گئے اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ہم بمشکل 20منٹ وہاں ٹھہرے اور پھر کسیانی بلی کی طرح دبے پائوں نکل آئے ۔

اگر انتظامیہ کا یہی رویہ رہا تو مستقبل قریب میں رہے سہے ادیب بھی یہاں کا رُخ نہیں کریں گے اور یہ خوبصورت عمارت ویران کھنڈر بن جائے گی ۔اللہ نہ کرے ایسا دن آئے ۔کہیں ایسانہ ہو کہ زاہد سلیم گوندل کا خواب اُدھورا ہی رہ جائے۔ میری بلکہ یہاں کے ادیبوں کی موجودہ ڈی سی او ملتان ،اور اعلی عہدیداروں سے پُرزورگزارش ہے کہ ملتان ٹی ہاوس کی پالیسی میں نرمی کا پہلو رکھا جائے اور انتظامیہ کے سخت گیر رویے کو کنٹرول کیا جائے تاکہ یہ خوبصورت عمارت گلستان بن جائے اور پھولو ں کی مہکار سے معطر معطر رہے ورنہ گلستان سے صحرا بنتے دیر نہیں لگتی۔

Abdul Majeed

Abdul Majeed

تحریر: مجید احمد جائی ۔۔ملتان