تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا خلیفہ ثانی حضرت عمر ِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت چوبیس لاکھ مربع میل پر تھی۔۔۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر پہرادیتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عمر ِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا توکل قیامت کے دن عمر (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس بارے پوچھ ہوگئی۔ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب دربار کا وقت ختم ہوا تو گھر آئے ، اور گھر کے کسی کام کو کرنے لگ گئے اسی دوران ایک شخص آیا اور کہنے لگا امیر المومنین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا۔
جب میں دربار لگا ہوں اُس وقت تم لوگ اپنے معاملات لیکر آتے نہیں اور جب میں اپنے گھر کام کاج میں لگ جاتا ہوں ،مصروف ہو جاتا ہوںتو تم اپنی ضرورتوں کو لیکر آ جاتے ہو۔۔۔ جب وہ شخص چلا گیا تو آپ کو اپنی غلطی کا بہت احساس ہوا اور آپ بہت زیادہ پرشان ہوئے۔ تو اُس شخص کو بلایا (جس کو درا مارا تھا) اور اُس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ اُس کے آگئے کر دیاور کہا مجھے دُرا مارو۔میں نے تم سے زیادتی کی۔۔ وقتِ حاکم جو چوبیس لاکھ مربع میل کا بادشاہ ہے وہ ایک عام آدمی کو کہہ رہا ہے کہ مجھے درا مارو میں نے تم سے زیادتی کی ہے ۔کاش آج ہم کو کوئی ایسا حکمران مل جائے جو حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا اگر نہ بھی ہو تو سائے جیسا ہی ہو حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سائے جیسا ہی۔مجھے پورا یقین بھی ہے اور اس بات پر میرا ایمان بھی ہے۔اگر ایسا ہو جائے تو دنیا امن بھائی چارے کا اصل نمونہ بن جائے ، جو اصل اسلام کا سبق ہے۔آپ سچے اور پکے عاشق ِ رسول ۖتھے۔
ایک پہاڑ کے غار سے بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی ۔ جسکی وجہ سے آس پاس کی تمام اشیاء جل کر راکھ ہوگئی ۔یہ بیانک واقعہ روایت میں آتا ہے جناب ِ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آیا،جب لوگوں نے اس ناگہانی آفت کی شکایت دربار خلافت میں عرض کی تو جناب مومنین کے خلیفہ دوئم ِ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت تمیم رضی اللہ عنہ کو اپنی چادر مبارک عطاء فرمائی اور آپ نے ارشاد فرمایا اے حضرت تمیم رضی اللہ میری اس چادر کو آگ کے پاس لے جاؤ، دنیا نے دیکھا جناب ِ حضرت تمیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ درباد خلافت سے سیدھے اُس مقام پر گئے جہاں آگ کے بے رحم شعلوں نے ہر چیز کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔
Fire
جب آپ چادر لیکر آگ کے پاس پہنچے تو وہ آگ یکا یک بجھنے لگی اور پیچھے بھی ہٹنے لگی، یہاں تک کہ وہ آگ غار کے اندر چلی گئی، حضرت تمیم رضی اللہ عنہ جب غار کے اند چادر کو لیکر گئے تو وہ غار اندر ایسی بجھ گئی کہ دوبارہ کبھی ظاہر نہ ہوئی۔ ازالةالخفا مقصد ٢ص١٧٢، کرامات صحابہ صفحہ ٧٨۔٧٩ ٰایک دفعہ کا زکر ہے جب اسلامی ریاست دن دگنی رات چگنی پھیل رہی تھی کہ شام دمشق اور اس کے ملحقہ علاقوں میں زلزلہ آگیا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار تھے، جب زمین کی ہلچل دیکھی تو گھوڑے سے اُتر کر اپنا پاؤں زمین پر مارا اور کہا اے زمین اگر تجھ کو عمر (حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلوں سے اختلاف ہے تو آج اُلٹ جا نہیں تو آج کے بعد یہ زلزلہ اس زمین پر نہیں آنا چاہیے، تاریخ گواہ ہے اُس وقت جتنے علاقے پر آپ کی بادشاہی تھی اُس دن سے آج تک زلزلہ نہیں آیا،اور انشااللہ قیامت تک آئے گا بھی نہیں، کیونکہ وہ سچے عاشقِ رسول ۖ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ تھے۔
ہم جیسے گناہگار آپ کے عشق ِ نبیۖ کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے، تاریخ کا ایک سنہری واقعہ بیان کر کے آپ سے اس امید اور دعا سے اجازت چاہوں گا ، اے ہمارے رب تجھے اپنے محبوب جناب رسول ۖ کا واسطہ کل مسلمانوں پر اپنا رحم و کرم کر کے سچا اور پکا عاشق مصطفےٰ ۖبنا۔۔ آمین یہ تاریخی واقعہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپاسلار کے دور کا ہے، جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو آپ نے سب سے پہلا سرکاری آرڈر کیا وہ حضرت خالد بن ولید کو سپا سلاری سے معزولی کا تھا۔
جس صحابی رسول ۖ کو حضرت عمر بن خطاب نے نیا سپاسلار بنا کر بھیجا وہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ نے معزولی کے آرڈر نہ دئیے جس کی دو وجوہات تھی ایک تو مسلمانوں کو حضرت خالد بن ولید کی سپا سلاری میں کامیابیاں مل رہی تھی، دوسری بات اللہ پاک کے پیارے حبیب ۖ نے حضرت خالد بن ولید کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا،سیف اللہ کا مطلب اللہ کی تلوار۔ اور اللہ کی تلوار کبھی بھی ٹوٹتی نہیں۔جب مال ِغنیمت بیت المال میں جمع ہوتا تھا تو پیچھے سپاسلار کی اسٹمپ ہوتی تھی، جب فتح ہونے والی بستیوں کا مال بیت المال میں پہنچا تو اسٹمپ سپاسلار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی تو حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی سے آرڈر دینے کی تلقین کی تو پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سپاسلاری کے فراہض سرانجام دینے شروع کر دئیے۔
Hazrat Khalid bin Waleed
مسلمانوں کے ایک گروپ نے حضرت خالد بن ولید سے گزارش کی کہ آپ کے ہاتھ سے بستیوں کی بستیاں دائرہ اسلام میں آ رہی ہے، اور اللہ کے حبیب جناب رسول اکرم ۖ نے آپ کو سیف اللہ کا خطاب بھی دیا اور سپا سلاری بھی، تو پھر کیا وجہ ہے کہ امیر المومنین خلیفہ حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو سپا سلاری سے معزول کر دیا ہے، حضرت خالد بن ولید نے کہا ہاں جب ہم واپس گئے تب میں امیر المومنین خلیفہ حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپاسلار حضرت ابو عبیدہ کی سپاسلاری میں جنگیں لڑتے رہے، جب واپس امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی عدالت میں پہنچے تو کہا اے امیر المومنین مجھے آپ کے کسی فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں ،مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے مجھے سپاسلاری سے معطل کیوں کیا تھا، حالانکہ ہمیں کامیابی پہ کامیابی مل رہی تھی، سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔ عاشق ِ رسول ۖ تو عاشق ہوتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔اے خالد بن ولید جو علاقے مسلمانوں کو مل رہے ہیں ان کی بشارت تو ہمیں نبی کریم ۖ نے دی تھی، مجھے ڈر تھا کہ کئی کفار یہ نہ سمجھ لیںکہ یہ علاقے حضرت خالد بن ولید کی وجہ سے مسلمانوں کو ملے ہیں میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتا ہوں سب کو پتا چلے کہ جو ہمارے نبی ۖ کی زبان ِ اقدس سے نکلتا ہے وہ ہی حرف آخر ہے،اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرتے ہیں، اس فیصلے کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت تمام مومنین نے سراہا،اور آج بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔