دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کے دعویدار بھارت کی ریاست پردیش کے ضلع مظفر نگر کے فسادات میں جہاں ایک جانب مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا وہیں مقدمات بھی ان ہی کے خلاف قائم کئے گئے۔ گزشتہ برس بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے چیف جوڈیشنل میجسٹریٹ کی عدالت میں رپورٹ پیش کی۔
جس میں ریاستی اسمبلی کے ارکان اسمبلی قادر رانا، نور سلیم رانا، مولانا جمیل، مقامی رہنما سعید زمان اور ان کے بیٹے سلمان سعید سمیت 10 افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے علاقے میں اپنی تقاریر کے ذریعے اشتعال پھیلاکر علاقے میں فساد کی آگ کوہوادی۔یہ ہے بھارت اوراس کا اصل چہرہ جو اپنے ہی ملک میں رہنے والوں مسلمانوں کی تعصب کی عینک لگا کر دیکھتا ہے اورملک میں کوئی بھی واقعہ پیش آجائے اس میں مسلمانوں کو ہی پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس مظفر نگر میں فسادات کے دوران 70 مسلمانوں کو قتل اور درجنوں کوخواتین کی عصمت دری کی گئی تھی۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ہزاروں مسلمان اب بھی اپنے آبائی علاقے میں نہیں جاسکتے اور کسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مظفر نگر میں مسلم کش فسادات سے متاثرہ اڑھائی ہزارطلبہ امسال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات بھی نہیں دے سکیں گے۔ متاثرہ طلبہ کے ضروری کاغذات وغیرہ اگست ستمبر میں فسادات کی نذر ہو گئے تھے اور مذکورہ طلبہ کے امدادی کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے نہ تو انہیں رولنمبرسلپ ملی ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے امتحانی سنٹر کی بابت کوئی خبر حاصل ہو سکی ہے۔
مظفرنگر فسادات سے متاثرہ مسلم خاندانوں کی پریشانیوں میں اب تک کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے بلکہ فساد زدگان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ فسادسے متاثرہ اڑھائی ہزارسے زائد طلباء کے امتحانات میں نہ بیٹھ سکنے کی وجہ سے ان کے اہل خانہ سخت مایوس اور اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالہ سے شدید پریشان ہیں۔اترپردیش حکومت کی جانب سے متاثرہ طلبہ کی تعلیم کے سلسلہ میںکوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ متاثرہ طلبہ کے اہل خانہ نے حکومتی اہلکاروں سے سوال کیا ہے کہ ان کے ایک سال کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ممبئی میں انتخابات سے قبل مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پولیس جبراً گرفتاریاں عمل میں لارہی ہے۔ اِس طرح کی گرفتاریاں جمعرات کی شب کی گئیں۔ 80 مسلمانوں کو ممبئی کے مضافات میں واقع ممبرا میں رشید کمپاونڈ سے اْٹھالیا گیا اور اِنھیں زبردستی حراست میں رکھ کر انتخابات سے قبل لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے احتیاطی اقدام کرنے کا ادعا کیا گیا۔ مسٹر عبید اعظمی بھی ان گرفتار شدہ 80 مسلمانوں میں شامل تھے جنھیں بعدازاں رہا کیا گیا۔ پولیس نے انھیں جمعہ کی صبح تک حراست میں رکھا تھا۔
Muzaffarnagar Riots
عبید اعظمی نے بتایا کہ میں جب گھر واپس ہوا تو میری رہائش گاہ کے اطراف پولیس کی بھاری جمعیت کو تعینات پایا۔ جیسے ہی میں اپنے مکان میں داخل ہوا، پولیس والوں نے مجھ سے زبردستی گھسیٹ کر ویان میں بٹھالیا۔ مقامی پولیس اسٹیشن لے جاکر صبح پانچ بجے رہا کردیا۔پولیس کارروائی کی شکایت اقلیتی کمیشن سے بھی کی گئی ہے۔پولیس کی کارروائی کے بعد مقامی لوگوں میں غصہ ہے جبکہ پولیس کے مطابق کسی کو حراست میں نہیں کیا گیا تھا اور صرف پوچھ گچھ کے لیے لایا گیا تھا۔مقامی رہائشی شہزاد پوناوالا نے اقلیتی کمیشن سے شکایت کی ہے۔پوناوالا کے مطابق اے سی پی امت سیاہ کی قیادت میں یہ کارروائی کی گئی تھی۔ پولیس جنہیں اٹھا کر لے گئی ان میں سکول میں پڑھ رہے لڑکوں سے لے کر 80 سال تک کے بزرگ شامل ہیں۔
جن لوگوں کو تھانے لے جایا گیا تھا ان میں 19 سال کے محسن اور 20 سال کے رمیض بھی شامل تھے۔محسن نے بتایا کہ میں نے ابھی 12 ویں کلاس کا امتحان دیا ہے جب میں نے پولیس کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ تم جیب کترے لگتے ہو۔رمیض نے بتایا کہ رات کو تقریبا دو بجے کے ارد گرد پولیس والے دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔ میرے گھر میں امی اور بہن سو رہی تھیں۔ میں اندر بیڈروم میں سو رہا تھا کہ اچانک پولیس کے آنے سے سب لوگ گھبرا گئے۔ میری ماں دل کی مریضہ ہیں۔ ان کی طبیعت بگڑنے لگی۔ پولیس والوں نے مجھے پکڑا اور کہا چل گاڑی میں بیٹھ۔محسن کا کہنا ہے کہ پولیس نے کئی لوگوں کو چھوڑ دیا تھا مگر ان کو بٹھا رکھا۔این سی پی کے مقامی ممبر اسمبلی جیتندر اوہاڑ کی مداخلت کے بعد محسن کو پولیس نے چھوڑا۔ اے سی پی امت سیاہ نے بتایا کہ کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔ انہیں صرف پوچھ گچھ کے لیے لایا گیا تھا۔ جب باہر لوگوں نے ہنگامہ کرنا شروع کیا، تو ان سے پوچھ گچھ بھی پوری نہیں ہو پائی۔شہزاد پوناوالا نے اپنی شکایت میں لکھا ہے اس امتیازی کارروائی کے لیے دو خواتین اہلکار سمیت تقریبا 200 کی تعداد میں پولیس والے آئے تھے۔پولیس نے مسلمانوں کو جس طریقہ سے گرفتار کیا اور انھیں گھسیٹ کر لے گئی وہ ذلت آمیز تھا۔ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پولیس کی یہ کارروائی قابل مذمت ہے۔ اِس واقعہ کی تھانے پولیس نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دنوں میں اِس طرح کی کارروائیاں معمول کا عمل ہوتی ہیں۔ تلاشی مہم کے دوران پولیس نے چند افراد کو گرفتار کیا تھا۔ وکیل اور سماجی کارکن شہزاد پورن والا نے کہاکہ اْنھوں نے انسانی حقوق کمیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔ اِس کے علاوہ قومی اقلیتی کمیشن سے بھی شکایت کی گئی کہ پولیس نے نفسیاتی طور پر ہراساں کرتے ہوئے مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچائی ہے۔ جن افراد کو گرفتار کیا گیا وہ تمام پروفیشنلس ہیں۔ اْن میں ضعیف افراد بھی تھے اور 75 سال کی عمر کے لوگ بھی تھے۔ ورکرس روز مرہ کی روٹی روزی کمانے والے ہائی اسکول کے طلبہ، گریجویٹس اور امتحان کی تیاری کرنے والے طلباء بھی شامل تھے۔
دنیا بھر میں بھارتی جمہوریت کے گیت گائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہ وہ ملک ہے جہاں پولیس کی حفاظت کے باوجود خواتین محفوظ نہیں ہیں جس کی واضح وجہ سیاستدانوں کا پولیس پر اثرو رسوخ ہے یہی کچھ فیروز آباد کی رہائشی بدقسمت لڑکی کے ساتھ ہوا جس کی حفاظت پر پولیس کانسٹیبل معمور تھے لیکن پھر بھی بااثر سیاستدانوں کے کارندوں نے اسے اغواء کیا اور اس کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن خوش قسمتی سے اس کی جان بچ گئی۔ لڑکی کے گھر والوں نے مقامی سیاستدانوں سے بچنے کے لئے پولیس کو درخواست دے رکھی تھی اور پولیس نے دو کانسٹیبل لڑکی کے گھر کے باہر تعینات کررکھے تھے لیکن بدھ کی رات کو لڑکی کو گھر سے اغواء کرلیا گیا اور اگلے دن وہ نیم مردہ حالت میں پائی گئی۔ لڑکی کی حفاظت پر معمور کانسٹیبلوں کا کہنا ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے جب لڑکی کو اغواء کیا گیا۔ ایک کانسٹیبل نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کھانا کھارہے تھے جب لڑکی کو اغواء کیا گیا جبکہ ایس ایس پی نے بتایا کہ لڑکی کا اغواء ہوا ہی نہیں۔ علاج پر معمور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لڑکی کے گلے کے گرد پھندے کا نشان ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کو پھندا لگاکر مارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ لڑکی کو گائوں کے ایک شخص دلبیر سنگھ نے زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
دلبیر سنگھ گائوں کی پردھان خاتون کا خاوند ہے اور یہ دونوں میاں بیوی کا 18 سے زائد گائوں میں اثر ورسوخ ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ مقامی سیاستدان اور ایم ایل اے رموپر سنگھ پادو کے لئے 30,000 ووٹ یقینی بنائے تھے اور 2012ء کے اتر پردیش الیکشن میں اْس کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس نے اب تک کسی بھی قسم کا ایکشن نہ لیا ہے اور ملزم کا نام ایف آئی آر میں شامل ہرنے کے باوجود کسی بھی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں اجتماعی زیادتیوں اور خواتین کی بے حرمتی کے کیس عام ہیں، جبکہ غیر ملکی خواتین کے ساتھ بھی ریپ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر سب سے زیادہ ریپ کئے جاتے ہیں۔