تحریر : ایس ایم عرفان طاہر جس دیس کے مسجد مندر میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں اس دیس کے ہر اک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
دانشوروں کے شہنشاہ اور علم و ادب کے بحر بیکراں حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں پیغمبر کے پیغمبر ہو نے میں جمہوریت کا قطعا کوئی دخل نہیں۔ آیئے اسلام کی طرف مسلمانوں کی را ئے سے دین اسلام ، اسلام نہیں ۔ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، اسلام اسلام ہے۔ یہ دین کثرت رائے کے احترام سے دین نہیں بنا۔ یہ اللہ کے حکم سے ہے۔ اللہ کی مرضی سے ، اللہ کے فیصلے سے۔ جمہوریت کا اس میں دور تک دخل نہیں۔ اگر دنیا کی کثیر آبادی غیر مسلم ہو، تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اسلام خدانخواستہ غلط دین ہے۔ اسلام سچا دین ہے۔ اسلام کے ماننے والے اقلیت میں ہوں تب بھی یہ سچا ہے۔ اس کے ماننے والے ختم بھی ہو جائیں تو بھی یہ دین سچا دین ہے۔ جمہوریت دین کے معاملے میں دخل نہیں دے سکتی۔ جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے۔ منصور کو سولی چڑھا تی ہے ۔ عیسیٰ کا احترام نہیں کرتی۔ جمہو ریت کے زریعے کوئی مفکر، امام ، دانشور ، عالم دین ، ولی یا مرد حق آگا ہ برسر اقتدار نہیں آسکتا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
4 جنوری 2011 پاکستانی تاریخ کا وہ موڑ جب ایک ایلیٹ فورس کے جوان ملک ممتاز حسین قادری نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک بہت بڑے دنیا وی عہدے دار گو رنر پنجاب سلیمان تا ثیر کو اس بات پر واصل جہنم کردیاکہ اسنے رحمت العالمین اور خاتم النبین حضرت محمد ۖ کی گستاخی کرنے والی آسیہ خاتون کی حمایت کی بلکہ 295 سی ناموس رسالت سے متعلقہ قانون کو کالا قانون کہا اور اسوقت کے صدر سے شاتم رسول کو معافی دلوانے کا وعدہ بھی کیا اسی اثناء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیریں رحمن نے بھی ناموس رسالت کے اس قائم کردہ قانون میں لچک اور اس پر نظر ثانی کے حوالہ سے ایک بحث مباحثہ شروع کیا پیشتر علماء دین اور مذہبی تجربہ کا روں نے اس حساس ترین معاملہ پر نقطہ چینی کرتے ہو ئے گستاخ رسول سلیمان تاثیر کو لعن طعن کے بعد رجوع کی درخواست بھی کی لیکن اس کے منصب اور گورنری کے نشے نے اسے اس طرف مائل نہ کیا اور آخر وہی ہوا جو کہ ایک فطری ردعمل تھا عشق رسول سے سرشار ایک مرد مجاہد غازی ممتاز حسین قادری نے مذہبی جذبات پر قابو نہ رکھتے ہو ئے پو ری مسلم امہ کا قرض چکاتے ہو ئے اپنا حق سمجھتے ہو ئے ناموس رسالت کے قانون کو چھیڑنے والے گورنر تاثیر کو واصل جہنم کیا۔
Mumtaz Qadri Shaheed
بلا شبہ یہ ایک دینی مسئلہ تھا اور اہل علم و دانش اور مذہبی عبور کے حاملین ہی اس پر پر مغز گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے تھے سینکڑوں مفتیان عظام اور علماء و مشائخ نے اس سارے معاملے کی گہرائی اور حساسیت کو پرکھتے ہوئے ملک ممتاز حسین قادری کے حق میں فتوے جاری کیے وہ کس حد تک درست اور قابل قبول تھے انہیں بھی دینی علوم کے تجربہ کار ہی پرکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں دنیا میں شہادتیں تو بے تحاشا ہوئیں موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بادشاہت و شہنشاہت کے بڑے بڑے برج بھی اپنے آخری ایام میں ذلیل و رسوا ہوتے اور عبرت ناک انجام کے مصداق ٹھہرے جن کی سلطنت کا چرچا شرق و غرب میں رہا ان میں چند دنیاوی اعتبار سے ناموں کا تذکرہ بھی وقت کی نذاکت کے مطابق لازم وملزوم سمجھتا ہوں عراق کے صدر صدام حسین ، لیبیا کے کرنل قذافی اور افغانستان سے فرار حاصل کرنے والے اسامہ بن لادن پاکستانی تاریخ میں بڑے بڑے شہداء کا تذکرہ ہر خاص و عام کی زبان پر دکھائی دیتا ہے۔
میجر عزیز بھٹی شہید ہوں راشد منہاس شہید یا ان جیسے دیگر شہدائے وطن اور نشان حیدر حاصل کرنے والے بہادر و جرات مند فوجی جوان جنہو ں نے وطن عزیز کی بقاء اور سلامتی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنی قیمتی جانیں قربان کردیں لیکن وطن کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دی وطن عزیز پر جان نچھا ورد کرنے والے بیشما ر شہداء و غازیان ایک طرف اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے آواز بلند کرنے والے اور اپنی قیمتی جان قربان کرنے والے عاشق رسول غازی ملک ممتاز حسین قادری شہید ایک طرف جن کے آخری سفر نے دنیا کے سامنے اس بات کو عیاں ضرور کردیا کہ رسول اللہ ۖ کی نسبت کا فیض مرنے کے بعد بھی ضرور ملتا ہے اپنے تو اپنے بیگانے بھی سرتسلیم خم کرتے ہو ئے دکھائی دیے غازی ملک ممتاز حسین قادری کی شہادت نے تین چیزیں نمایاں طور پر ظا ہر کیں ایک تو جمہوریت شریعیت اور سیاست کو جدا کردیادوسری پاکستان میں سالہاسال سے جاری فرقہ وارانہ جنگ کو بھی مات دے دی اور تیسرا پاکستان میں موجود اپنے پرائے کو بھی بخوبی بے نقاب کردکھایا۔
Tahir ul Qadri
ممتاز حسین قادری کے گورنز سلیمان تاثیر کو واصل جہنم کرنے کے بعد جن سیاسی پارٹیوں نے ان کی مخالفت کی اس میں سرفہرست پاکستان پیپلز پارٹی جس نے اس سارے مسئلے کو بنیاد فراہم کی دوسری ایم کیو ایم جس کے قائد ین ایسی ہی غلطیوں کے مرتکب خود کو بھی گردانتے ہیں تیسری پاکستان تحریک انصاف اور پھر سرفہرست متنازعہ مذہبی شخصیت جن کا عقیدہ اور مذہب شب و روز متزلزل اور تذبذب کا شکار دکھائی دیتا ہے سربراہ عوامی تحریک طا ہر القادری، مفتی اعظم پاکستان پیر طریقت اور رہبر شریعیت الحاج ابو دائود محمد صادق نے ان کی شان میں ایک کتاب خطرے کی گھنٹی بھی تحریر فرمائی تھی اسکے علاوہ کئی علماء دین نے انکے متنازعہ بیانات اور خوابوں کے باعث تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے ۔ایک بڑے اجتماع میںفا تر العقل قبلہ ڈاکٹر صاحب نے خود فرمایا تھا کہ جب دنیا سے جنا زے اٹھیں گے تو لوگوں کو اصلیت سامنے آئے گی کہ کون عاشق رسول ہے اور کون خدا کی بارگاہ سے ٹھکرایا ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف بھی اس معاملہ میں پیچھے نہ رہی کیونکہ انہیں خبر ہے کہ اپنے سیاسی بھائیوں کی اگر طرفداری نہ کی جا ئے گی تو بے موت مارے جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ سیاسی گھرانوں سے داد یا خیر کی امید بھی باقی نہ رہے۔ میاں نواز شریف جو اپنے گزشتہ ادوار میں امیر المومنین کے خواب بھی دیکھتے رہے نے خود کو دنیا کی نگاہ میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے ہر ایک ہیلہ بہا نہ آزمایا اور آخر کار ایک محافظ ناموس رسالت کہلوانے والے غازی کے جان لیوا ثا بت ہو ئے میاں صاحب کے داما دموصوف ایم این اے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے پارلیمینٹ کے اندر تحفظ ناموس رسالت با رے بحث کرتے ہو ئے ان کے متعلق کیا خوبصورت اور سوفیصد مثال پیش کی کہ ناموس رسالت پر اعتراض وہی اٹھا تا یا گستاخی کا مرتکب بنتا ہے جس کے اصل میں فرق ہوتا ہے یعنی عرف عام میں جسے حرامی بھی کہا جا سکتا ہے صدر اور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے کردار اور ہر ہر عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے اصل میں فرق ہے اور وہ حلالی ہو ہی نہیں سکتے ہیں جو اپنی ذات کے ساتھ نہ تو مخلص ہیں نہ اپنے دین کے ساتھ مخلص ہیں نہ ہی اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں جس ملک کے اندر عدل و انصاف کا معیا ر عہدے اور منصب کو دیکھ کر بدل دیا جائے۔
جہاں پر اپنے آئین اور قانون سے انحراف کیے جانا فخر سمجھا جا ئے جہاں اپنے قائد کے خوابوں کا روز ہی جنازہ نکالا جا ئے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ایسی سرزمین کا ایک مختصر سا موازنہ میں گورنر سلیمان تاثیر اور ممتاز قادری کا پیش ضرور کرنا چاہوں گا تا کہ لوگ خود یہ حقیقت جان جائیں کہ ہیرو کون ہے اور زیرو کون ؟سلیمان تاثیر کو جس وقت ممتاز قادری نے قتل کیا تو اسوقت کے گورنر کا جنازہ پڑھانے کے لیے کوئی بھی عالم دین تیار نہ ہوا نہ ہی کسی نیک متقی پرہیز گار اور با کردار شخصیت نے جنازے میں شرکت کرنا گوارا کیا جبکہ عالم اسلام کی بہت بڑی بڑی روحانی اور مذہبی شخصیات ممتاز قادری کا جنازہ پڑھانا تو دور کی بات بلکہ پڑھنے کی خواہش کرتی ہوئی دکھائی دیں گورنروقت کے جنازے پر چند سوٹ اور بوٹ والے سیاسی وابستگی کے باعث شامل ہو ئے جبکہ ممتاز قادری شہید کے جنا زہ میں نہ صرف سوٹ بوٹ والے بلکہ امامہ شریف اور بہت بڑی بڑی دینی مسندوں کے روح رواں اور سربراہا ن صف با قطار دکھائی دیے۔
ممتاز قادری کا کیس لڑنے کے لیے 300 سے زائد وکلا ء نے رضاکارانہ طور پر اسوقت اپنی خدما ت پیش کیں جبکہ سلیمان تاثیر کے ذاتی خاندان والے بھی کیس لڑنے سے گریزاں دکھائی دیے۔ جنرل پرویز مشرف اور جاوید احمد غامدی جیسے روشن خیال لوگوں سے ممتاز قادری کے خلا ف زہر اگلوایا گیا جبکہ ہر پیر و جوان غازی کی جانب کھڑا ہوا دکھائی دیا لمحہ فکریہ ہے ہر ذی شعور انسان کے لیے کہ کیا اتنا بڑا انسانی اجتماع کسی کہ دنیا کے جا نے کے بعد دکھائی دیا کیا کبھی عمران خان نے اسقدر بڑا جلسہ عام کیا ؟ کیا طا ہر القادری اسقدر عوام کو دھرنوں میں مائل کرسکے کیا موصوف کا اپنا جنازہ اسقدر بڑا اور اہمیت کا حامل ہو گا؟ غیرت و حمیت کے حامل کئی اہل ایمان اس رقت آمیز مناظر کو دیکھ کر نون لیگ کو خیرآباد اسلیے کہہ گئے کہ یہ یزیدی اور فرعونی جما عت ہے جس نے ایک عاشق صادق کو سولی پر چڑھایا جیسے عاشقان رسول اور اہل ایمان کی ایک جماعت برسراقتدار ٹولے کے خلاف برسر پیکار ہے۔
Nawaz Sharif
اسی طرح ابوجاہل اور دجال کے پیروکار بھی دنیا میں موجود ہیں حق و باطل کی یہ جنگ تا قیامت قائم و دائم رہے گی کیونکہ اللہ کی حکومت اور ابلیس کی اپوزیشن ساتھ ساتھ چلتی رہیں گی بے شک جیت پھر بھی ایک دن حق کی ہونی ہے اور باطل کو سرتسلیم خم کرنا ہوگا ۔ عوام الناس کے زیر نظر یہ بات لازم ہونی چاہیے کہ اگر حکومت وقت حق پر تھی باطل انکے خلا ف برسرپیکار تھا تو میڈیا کو اتنے بڑے اجتما ع کو دکھانے سے کیوں روکا گیا ؟ جس میڈیا نے محض ایک نیم پاگل شخص سکندر کو اسلام آباد کئی گھنٹے لائیو دکھایا تو انہیں کیسے اور کیوں روکا گیا ممتاز قادری کے جنازے کو کوریج دینے سے ؟ ممتاز قادری اور سلیمان تاثیر کا معاملہ مذہبی تھا تو اس کا فیصلہ شرعی کورٹ سے کیوں نہیں لیا گیا ؟ قانون تحفظ ناموس رسالت اگر کسی انسان کا بنایا قانون نہیں ہے تو پھر کسی انسان کو اسے توڑنے یا بنانے کی اجاز ت ہی کیسے ہے ؟۔
توہین رسالت اگر محض رسول اللہ ۖ کی ذات معاف کرسکتی ہے تو پھر ایسے مجرم کو دنیا کی عدالت میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر آئین پاکستان عدلیہ اور مسلح افواج پاکستان کی توہین و تضحیک کی ہر گز اجازت نہیں دیتا تو پھر ان اداروں کو میڈیا ہر اعتباز سے نشانہ بنا سکتا ہے تو پھر ایک محافظ ناموس رسالت کی پراسرار شہادت پر خاموشی کیوں ؟ اگر ممتاز قادری واقعتا ایک عاشق صادق تھا تو پھر عشق رسول کے دعوے دار حکومتی ایوانوں میں کیوں دکھائی دیتے ہیں ؟ممتاز قادری کو سزا دی گئی تو پھر پاکستان کے دو شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو کیوں دیت کے باعث آزاد چھوڑ دیا گیا ؟اگر ممتاز قادری واقع ہی دہشتگرد اور انتہا پسند مذہبی جنونی تھا توپھر اسکے جنا زے میں طالبان کے حامی اور پیروکار مولانا سمیع الحق ، مولانا عبد العزیز ، مولانا یوسف شاہ اوردیگر کیوں دکھائی نہیں دیے؟۔
یہ ایسے سولات ہیں جو ہر ذہن و قلب پر دستک دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو پھر ان کے جوابات قوم کے لیے کون تلاش کرے گا ؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ آج پاکستانی قوم حقیقی بیدار ہو گئی ہے ایک عاشق رسول کی شہادت پر تو پھر یہ منافقانہ رویہ کیوں ؟پھر یہ سیاہ و سفید یکجا کیوں ؟کیا پو ری قوم مادر پدر آزاد سیاسی پارٹیوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرے گی یا پھر عدلیہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہو ئے اس قربانی کو بھی قبول کرلیا جا ئے گا ۔ 1973 کا آئین پاکستان اگر قرآن و سنت پر عمل پہرا ہو نے کا متقاضی ہے اور پاکستان کی بنیاد واقعتا ہی کلمہ طیبہ پر اور اسلام پر رکھی گئی ہے تو پھر یہ منافقت اور ڈبل سٹینڈرڈ دنیا میں کس نام کا دکھائی دیتا ہے ۔ حکمران طبقہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیما ت سے بیضار اور نابلد کیوں دکھائی دیتا ہے ؟پاکستان ایک سیکولر سٹیٹ ہے یا اسلامی ریاست؟ خدارا پہلے پاکستان کی اساس اور بنیاد کو ثابت کریں پھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی با ت کی جا ئے۔
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا