تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم ممتاز قادری کو پھانسی ہو گئ۔ اسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ میں نے صبح صبح جب یہ خبر دیکھی تو سوچا کہ آج شاید پاکستان میں (خدا نا خواستہ) خون خرابہ ہو گا۔ کراچی سے خیبر تک تمام ملک بند ہو گا اور ہمارا میڈیا آج ان خبروں سے بھرا پڑا ہوگا لوگ گھروں میں قید ہو جایں گے۔ اسٹاک مارکیٹ کرش کر جائے گی ۔ مگر جب میں ٹی وی دیکھنے بیٹھا تو سوائے خبرنامے میں اس خبر کا چھوٹا سا زکر دیکھا ۔ چینل تبدیل کیا تو ہر چینل پر تقریبا ایک جیسا حال تھا ۔ پھر دن گُزرنے کے ساتھ ساتھ کہیں چھوٹے موٹے احتجاج کی خبریں تھیں ۔ مگر کوئ قابل زکر مظاہرہ یا احتجاج دیکھنے میں نہی آیا ۔ میں نے جن خدشات کا زکر اوپر کیا ہے یہ سب کچھ ہو سکتا تھا اگر پاکستان کا میڈیا سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرتا ۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ہونے والے خطرناک حالات کو روکنے کا سہرا صرف اور صرف ہمارے میڈیا کے سر ہے ۔ جس نے نہایت فہم اور دانائ سے اس خبر کے ساتھ انصاف کیا اور ملک کو ایک بڑے نقصان سے بچایا۔
بحثیت ایک پاکستانی مسیحی کے، پہلے میں سوچتا رہا کہ ممتاز قادری کی سزا یا جزا کا مسلئہ مسلمانوں کا آپسی مسلئہ ہے ۔ مگر پھر سوچا کہ اس کی بنیاد گستاخ رسول کا قانون ہے جس کے سب سے زیادہ شکار ہم مسیحی ہیں اس لئے لکھنے بیٹھ گیا ۔ میرے اس جملے پر کہ” اس قانون کے سب سے زیادہ شکار ہم ہیں ” میرے چند پاکستانی مسلمان دوست ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ گل صاحب اس قانون کے تحت سب سے زیادہ مسلمان قید ہیں اور ان کے خلاف زیادہ مقدمات ہیں۔ میں نے جواب میں جب ان سے یہ کہا کہ آپ بلکل درست کہہ رہے ہیں مگر کیا کوئ ایک واقعہ شہادت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ کسی ایک مسلمان پر گستاخ رسول کی ایف آئ آر کٹی ہو اور اس کے پورے کے پورے گاؤں کا جلا کر راکھ کر دیا گیا ہو؟۔
Salman Taseer
یہ سن کر میرے دوست لاجواب ہو جاتے ہیں۔ شانتی نگر ، سمبھڑیال ، تحسیر ٹاؤن ، گوجرہ اور جوزف کا لونی جیسی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر نے گستاخ رسول کے قانون پر جو بیان دیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ کوئ زی شعور انسان اس بیان کو سن کر یہ نہی کہہ سکتا کہ اس میں گورنر صاحب نے کوئ گستاخی کی ہے ۔ وہ اس بیان میں نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اپنے رسول کو زکر کر رہے ہیں ۔ اس قانون پر بات کر رہے ہیں جو انسانوں نے بنایا ہے۔ اور اسے بھی ختم کرنے کی بات نہی کر رہے بلکہ اس کی نوک پلک سوارنے کی بات کر رہیے تھے اور جواز بھی نہایت معقول تھا کہ اس قانون کی وجہ سے ہم بدنام ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اس واقعہ سے تین دن قبل گورنر صاحب نے اپنے اس گارڈ ممتاز قادری کو کسی بات پر ناراض ہو کر ڈانٹا تھا۔ اس بات کے گواہ بھی تھے جن کو بعد میں خاموش کرا دیا گیا تھا۔ اس تمام واقعہ میں جو بھی ہوا وہ تو سب کے سامنے ہے ۔ مگر میرے لئے چند باتیں نہایت تشویشناک ہیں ۔ ممتاز قادری نے قانون ہاتھ میں لیا اور جواز پیش کیا کہ گستاخ رسول کی سزا یہ ہے کہ اسے صفائ کا موقع دیے بغیر ہی قتل کر دو۔ مگر اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے چوٹی کے وکیل ممتاز قادری کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ اس نے جو بھی کیا ٹھیک کیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہوئ کہ ممتاز قادری کے 90 وکیلوں کے پینل میں لاہور ہائ کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف اور لاہورہائ کورٹ کے سابق سنئیر جج میاں نزیر اختر شامل تھے۔ یہ ہمارے عدالتی نظام پر ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ جہاں ایک عدالت نے اسے سزائے موت دی وہاں اسی عدالتی نظام سے تعلق رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ممتاز قادری کو نہ صرف بے گناہ سمجھتی ہے بلکہ اس کے اس انتہائ اقدام کو درست سمجھتی ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کی کئ مزہبی اور سیاسی جماعتیں بھی ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف آواز اٹھا کر اس کے عمل کو درست قرار دے رہی ہیں ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور سیاسی راہنماؤں نے اس کے جنازے میں شریک ہو کر اسے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
Mumtaz Qadri Funeral
وزیر مملکت برائے مزہبی امور صاحبزادہ امین الحق شاہ صاحب نے خصوصی طور پر ممتاز قادری کے جنازے میں تمام لوگوں کو شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ ثواب دارین حاصل کریں ۔ کیپٹن صفدر جو کہ نواز شریف کے داماد ہیں ان کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ ممتاز قادری کے اس اقدام کو درست قرار دے رہے ہیں ۔ اور گورنر سلیمان تاثیر کے قتل کو جائز کہہ رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہی آئ کہ اگر واقئ ممتاز قادری نے درست اقدام کیا تو اسے پھانسی کیوں ہوئ ؟۔ اور اگر یہ جرم ہے تو ہمیں قانون سکھانے والوں کی اتنی بڑی تعداد جن میں کئ وکیل مستقبل کے جج ہیں کیسے اس عدالتی نظام میں انصاف فراہم کریں گے۔ اگر ممتاز قادری حق پر تھا تو منظور مسیح ، بنتو مسیح ، نعیم عامر ، مختار مسیح ، شہباز بھٹی ، کوٹ رادھا کشن میں بھٹی میں زندہ جلائے جانے والا مسیحی جوڑے شہزاد اور شمیم مسیح کے قاتل کس طرح قصور وار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے حالات سے قوم منتشر ہوتی ہے۔ مجھ جیسے لاکھوں پاکستانی کنفیوز ہوتے ہیں کہ غلط کیا ہے اور صیح کیا ہے۔
ایک معروف صحافی ایک ٹاک شو میں چیختے رہے کہ آسیہ بی بی کو پھانسی نہی دی تو ممتاز قادری کو کیوں پھانسی دی گئ۔ موصوف صحافی سے کسی نے بھی نہی پوچھا کہ جناب آسیہ بی بی اور ممتاز قادری کے کیس میں دور دور تک کوئ مماثلت نہی ہے۔ آسیہ بی بی کا کیس ابھی سپریم کورٹ میں ہے اور وہ صحت جرم سے انکار کرتی ہے ۔ جبکہ ممتاز قادری کو قتل کرتے سینکڑوں لوگوں نے دیکھا ہے۔ اور سب سے بڑ کر مجرم خود اس بات کا اقرار کرتا رہا ہے کہ میں نے گورنر کو قتل کیا ہے۔ اور مجھے کوئ ندامت نہی ہے۔ مگر بعد میں اپنی جان بچانے کے لئے اپیل بھی کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان ممتاز قادری کو سزائے موت سنانے والے ججز کی حفاظت کے لئے کیا قدامات کرتی ہے۔