میونخ (اصل میڈیا ڈیسک) ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت میں امریکا اور یورپ کے باہمی تعلقات میں شدید کھچاؤ رہا۔ میونخ کانفرنس میں بائیڈن، میرکل، ماکروں اور جانسن ان تعلقات میں دوبارہ بہتری کی جانب بڑھیں گے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی بنا پر جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے منتظمین کو اس سالانہ کانفرنس کے انعقاد میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی روز پر محیط یہ سکیورٹی کانفرنس سن 1963 سے ہر برس فروری کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ یہ کانفرنس آن لائن منعقد ہو رہی ہے اور اس بار اس کا دورانیہ میں بھی نہایت مختصر ہے۔
کانفرنس کے دوران ایک تقریب میں امریکی صدر جو بائیڈن، جرمن چانسلر میرکل، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن شریک ہو رہے ہیں، تاہم وقت کی کمی اور ایونٹ کے فارمیٹ کے تناظر میں ان رہنماؤں کی باہمی گفتگو کا امکان خاصا کم ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس کے چیئرمین وولف گانگ اِشنگر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ”اگر یہ نارمل سکیورٹی کانفرنس ہوتی، تو صدر درجنوں اسٹاف ممبران کے ہمراہ اس میں شریک ہوتے۔ ان افراد سے ملا جا سکتا تھا اور ان سے اپنی دلچسپی اور تشویش سے متعلق موضوعات پر گفتگو ہو سکتی تھی۔ مگر موجودہ صورت حال میں یہ ممکن نہیں۔‘‘
اس سکیورٹی کانفرنس میں عام عالات میں تمام اہم ممالک بہ شمول چین اور روس شریک ہوتے ہیں جب کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی نمائندے شامل ہوتے ہیں، تاہم اس بار چین اور روس سمیت کئی اہم ممالک اس سکیورٹی کانفرنس میں شریک نہیں ہیں۔ اِشنگر کے مطابق، ”اسے آپ ایک امریکی یورپی تقریب کہہ سکتے ہیں تاکہ ماحولیات، عالمی وبا اور دہشت گردی جیسے عالمی امور پر مشترکہ لائحہ عمل تربیت دیا جا سکے۔‘‘
جوبائیڈن کی بہ طور امریکی صدر میونخ سکیورٹی کانفرنس میں یہ پہلی شرکت ہو گی۔ اس سے قبل وہ اس کانفرنس میں دو مرتبہ صدر باراک اوباما کے ہم راہ بہ طور نائب صدر شریک ہو چکے ہیں۔
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
اس بار تین گھنٹوں پر محیط اس کانفرنس میں پہلا گھنٹا عالمی وبا جیسے بڑے مسائل کے لیے مختص کیا گیا ہے، جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش، عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریسیوس اور بل گیٹس جیسی اہم شخصیات شریک ہوں گی۔
سن 2017 میں اسی کانفرنس میں بل گیٹس نے عالمی وبا کے خطرات سے متنبہ کیا تھا، اشنگر کے مطابق، ”تب کسی نے بات نہیں سنی تھی۔ اگر ہم نے تب بل گیٹس کی بات پر توجہ دی ہوتی، تو آج دنیا کو اس تباہ کن صورت حال کا سامنا نہ ہوتا۔‘‘
اس کانفرنس میں ماحولیاتی بحران کے موضوع پر جو بائیڈن کے مندوب برائے ماحولیات جان کیری شریک ہو رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں ایک ایونٹ میں جو بائیڈن، میرکل، ماکروں اور جانسن بھی شریک ہو رہے ہیں۔ اس نشست میں ہر رہنما کے لیے پندرہ منٹ کا وقت رکھا گیا ہے۔