تحریر: آ صف لانگو جعفر آبادی اسلامی جمہوریہ پاکستان میںاس وقت تین بنیادی حکو متی ڈھانچہ قائم ہیں ۔ ایک وفاقی ، دوسرا صوبائی او ر تیسرا بلدیاتی یا ضلعی حکومت رائج الوقت ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اکثر بڑے خاندان کے لوگ پہنچتے ہیں ۔ عالیشان وقت گزارنے کے بعد اکثر جگہوں میں ایک ایک کر کے باری لیتے رہتے ہیں یا کچھ لوگ اپنی بزدباری،سیاسی پارٹی کے سہارے، دولت اور شہرت کی گھمنڈ کی وجہ سے اسمبلیوںتک جا پہنچتے ہیں ۔ ہم بات کر رہے ہیں تیسری حکومتی ڈھانچہ یعنی ضلعی یا بلدیاتی حکومت کی۔
بلدیاتی حکومت میں بھی اسمبلی موجودہ ہے یہ حکومت ٹاؤن ، سٹی اور ضلع کی سطح پر مجلسیں ہوتی ہیں ۔ جس کے ارکان کو عوام منتخب کرتا ہے ، یہاں خواتین ، اقلیت اور کسان کے لئے بھی مخصوص نشست بھی موجود ہیں ۔ البتہ ان کو سرکاری خزانے میں ترقیاتی کاموں خرچ کرنے کے لئے چھوٹی سے رقم ملتی ہے لیکن ضلعی سطح پر قوانین سازی کا اختیار رکھتا ہے ۔ یہاں کابینہ تو نہیںہوتا لیکن سینٹ کی طرح چیئر مین اور ڈپٹی چیئر میں ( اسپیکر ) کا کر دار ادا کرتے ہیں ۔ اس کے بھی دو اقسام سامنے آ ئے ہیں ایک ناظمین کا دوسرا چیئر مین سسٹم ۔
پاکستان میں رائج نظام سابقہ قوانین دراصل انگریزوں کے دور کے بنائے ہوئے قانونی ڈھانچے کا تسلسل تھے جو آ ج سے دو صدیاں قبل برصغیر کے لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے بنا یا گیا تھا ۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی ان میں سے اکثر قوانین بنے بھی تو ان کو مختلف با اثر حلقوں نے چلنے نہیں دیا۔ کوئی بھی نظام چیزوں کو آ سان بنانے میں مدد دیتا ہے مگر پاکستان میں رائج بلدیاتی نظام ایسا نہیں کر سکے جس کے باعث لوگوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان کی تعداد اور شدت میں توا تر اضافہ وہتا گیا۔
Political System
وقت موجودہ حکو مت نے اقتدار سنبھالتے وقت جس سات نکات ایجنڈے کا اعلان کیا تھا اس مین معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی نظام کی اصلاح کی شق بھی موجود تھی اس ضمن میں حکومتی اداروں نے مفاد عامہ کی تنظمیوں کے ساتھ مل کر ملک کے لاتعداد سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور علمی اداروں بالخصوص معاشرے کے محروم طبقوں سے بار بار مشوروں کے بعد اس منصوبے کو تیار کیا اور جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان نے اسے چودہ اگست 2000ء کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس طرح حکومت نے قومی اہمیت کے حامل اس بنیادی منصوبے کو عوامی مشاورت کے لئے ہر سطح پر پیش کر کے رائے عامہ کو شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ پرویز مشرف کا فارمولا برائے لوکل گورنمنٹ نظام کا بنیادی ادارہ یونین کونسل تھا جس کے تقریباََ 21ارکان ہوتے تھے ۔جن میں 12عام نشست ، 4 خواتین ، 6مزدور و کسانوں کے لئے جس میں پھر 2اور بھی عورتوں کے لئے ، ایک اقلیتی رکن کے لئے اور ایک ایک یونین ناظم اور نائب ناظم کی تھی
سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے قبل لوکل گورنمنٹ سسٹم تھا مگر بیکار اور بے اختیار سسٹم تھا کیونکہ اس سسٹم کو با اختیار بنا نے کے لئے سیاسی قائدین و صوبائی اور قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ با اختیار رہنے کے خواہش مندوں نے چھوٹے سیاست دانوں کو بے اختیار رکھا۔ یونین کونسل ، ٹاؤن اور ضلع میں چیرمین سسٹم ہوا کرتا تھا جو اب رائج عمل ہے ۔ لیکن پرویز مشرف ترقیاتی و چھوٹے موٹے قوانین بنانے کے اختیار ناظمین کو دیا تھا ۔ جیسا کہ ضلع نصیر آ باد کا سب سے پہلاضلعی ناظم میر خان محمد خان جمالی منتخب ہوئے تھے ۔ ضلع جعفر آباد کے قیام کے بعدجعفر آباد کا لوکل باشندہ ہونے کی وجہ سے جعفر آباد کا ضلعی ناظم منتخب ہوئے اور فرائض انجام دیے تھے۔
لیکن موجودہ حکومت نے پرانہ بلدیاتی نظام بحال کیا جس کی سب سے بڑی وجہ ایم پی اے ہر ایم این اے کی فنڈنگ میں کمی ہے جس کو برادشت نہ کرتے ہوئے سیاسی حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لئے پرانہ بلدیاتی نظام پر بلوچستان بحال کیا اور اب دیگر صوبوں عنقریب ہونگے جیسا کہ کے پی کے کا شیڈول بھی جاری ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں ایک میٹر پولیٹن کارپو ریشن جو کہ کوئٹہ ہے ، 54 میونسپل کمیٹیاں، 4 میونسپل کارپوریشن ، 5498 ضلعی رورل یونین کونسل ، 635 ضلعی یونین کونسل اور 1057 عربن وارڈز ہیں۔پولنگ 07 -12- 2013 کو ہوئے تھے ۔میونسپل کمیٹی 24 نشست میں سے بیشتر الیکشن سے قبل سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ بلا مقابلہ اور باقی نشستوں پر مقابلہ ہوا۔
Platform
جس میں چند سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اور لیکن اکثریت آ زاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے ۔ جس میں شہر کے چند معزز حضرات بھی شامل تھے ،میونسپل کمیٹی 24نشست میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء میر اورنگ زیب خان جمالی، سخی سردار شاہنواز عمرانی، صحبت خان کھوسہ ، محمد ایوب کھوسہ سمیت دیگر نوجوان سیاستدان شامل ہیں۔ الیکشن سے قبل اور بعد میں چار گروپ بن چکے تھے ایک میر زیب خان جمالی اور دوسرا میر فائق خان جمالی، تیسرا گروپ میر عمر خان جمالی او ر چھوتا میر نعیم خان کھوسہ کا ۔ لیکن یہاں میر نعیم کھوسہ گروپ الیکشن کے بعد پویلین واپس گیا اور میر عمر خان گروپ تھرڈ پوزیشن میں آ ئے اور پہلے ہی دن آ ؤٹ آ ف اسکرین ہوگئے اور یہاں مقابلہ میر زیب خان جمالی اور میر فائق خان جمالی کا قائم ہو گیا ۔ چونکہ میر زیب خان جمالی کے ساتھ 24میں سے آ ٹھ ارکان کامیاب ہو گئے لیکن باقی میر فائق جمالی گروپ میں شامل تھے ۔
07-12-2013 ء کے بعد بہت دیر کے بعد صوبائی حکومت کو یاد آیا کہ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن کروائے گئے ہیں جن کی حلف برداری ، اختیارات اورعہدے بھی دینے ہیں آ خر کار ایک سال ایک ماہ بعد بلوچستان کے بیشتر میونسپل کمیٹیوں اور ضلعی کونسل کے چیئرمین شپ کے لئے الیکشن کا فیصلہ کیا گیا ۔ 28جنوری 2015ء کو ڈیرہ اللہ یار میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کے لئے د و اہم رہنماؤں کے درمیان الیکشن ہوا جس میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء میر زیب خان جمالی اورن لیگ کے میر فائق جمالی کے حمایت یافتہ سردار سخی شاہنواز عمرانی کے مقابلہ ہوا۔
جس میں میر فائق خان جمالی کے حمایت یافتہ سردار سخی شاہنواز عمرانی بھاری اکثریت کے ساتھ چیئرمین اور ایوب کھوسہ وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ زیب خان جمالی کو صرف چار ووٹ کاسٹ ہوئے باقی مخالفت میں چلے گئے ۔ جن میں ایک ووٹ اپنا خود کا ، دوسرا عبد الر حمن لہڑی، تیسرا شریف کٹبار اور چھوتا ایک بزرگ خاتون امام خاتون بمبل کے ووٹ ملے اور اپنے ہی پارٹی کا ایک رکن ارشاد رند نے بھی ان کو دھوکہ دیا ۔اسی طرح میر زیب خان جمالی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی خوشی کے ساتھ مخالف فاتح کو مبارک باد بھی دیا اور شہر کے مسائل کے حل کے تعاون کا یقین دہانی بھی کروائی۔ لیکن یہاں ایک اور چہرہ مایوس بھی ہوا ( لوگوں کے مطابق) ایک نوجوان رکن میونسپل کمیٹی میر صحبت خان کھوسہ جسے میر فائق خان جمالی نے ابتدائی دنوں میں چیئرمین میونسپل کمیٹی کے دلاسے دیئے تھے مگر عین موقع پر میر فائق جمالی نے اپنا حتمی فیصلہ میں تبدیلی کیا۔
Local Bodies Election
میر زیب خان جمالی کا موقف ہے کہ موجودہ بلدیاتی الیکشن دنیا کا بد ترین بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں ، کوئی ڈسپلین کا مظاہر ہ ہوا اور نہ ہی کوئی درست طریقہ کار تھا۔ ان کے ساتھ صوبائی حکومت کی سستی شکست کا سبب بنا ہے ۔ بلد یاتی الیکشن کے فوراََ بعدچیئر مین کے الیکشن ہوتے تو ان کی کامیابی ممکن تھا کیونکہ ایک سال کے بعد الیکشن میں موومنٹ آ یا تو اس دوران ہارس ٹریڈنگ کے راستے ہمواراور دروازے کھل گئے ۔ میر زیب خان جمالی کے مطابق اراکین کو مخالف گروپ کی جانب سے بے پناہ تنگ اور لالچ دیا گیا کسی کو نوکری کی تو کسی ترقیاتی فنڈز کی اور کسی رقم دے کر خرید ا گیا۔ ان کے حمایتی ارکان کو دھمکایا اور حراسان کر کے ہارس ٹریڈنگ پر مجبور بھی کیا گیا ۔ انھوں نے ہارس ٹریڈر اور ہارس ٹریڈنگ کو کھلم کھلا چھوڑ دیا اور الیکشن کے دن بخوشی چار ووٹ کے ساتھ چیئر مین شپ کے لئے شکست تسلیم کیا اس کے ساتھ عبدالرحمن لہڑی ، ایک محمد شریف کٹبار اور ایک خاتون امام خاتون بمبل ( کریم بمبل کی والدہ) الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ سے بچ گئے۔ میر زیب خان جمالی کے مطابق عطاء اللہ گولہ ، گلاب راہوجہ ،بہرام میرالی ، پی ٹی آ ئی کے ارشاد رند ،سمیت کئی ارکان ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہو گئے ۔
الیکشن کے ایام کے ابتدائی دنوں میں جو ان کے ساتھ تھے کئی اراکین کو ان کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی لیکن وقت کے ساتھ اکثریت اراکین نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ زیب خان جمالی کا تحریک انصاف سے تعلق ہے تو پی ٹی آ ئی کا ممبر کی وجہ سے ماجد بھنگر جس کے حق میں کریم بمبل کو دست بردار کیا گیا کیونکہ ماجد بھنگر پی ٹی آ ئی میں شامل تھے اور زیب خان نے ان کو اپنا رفیق تصور کیا تھا لیکن یہاں سے ان کو مایوسی موصول ہوئی۔بقول زیب خان جمالی کے ہارس ٹریڈنگ سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ لوگوں کی پہچان ہوگئی ہے۔
قارئین حضرات :بحر حال ڈیرہ اللہ یار میونسپل کمیٹی کا چیئرمین کا انتخاب غلط تو ہر گز نہیں سردار سخی شاہنواز عمرانی بھی ایک ایماند ار اور با اخلاق معتبر شخصیت کے مالک ہیں ۔ جعفر آباد ، نصیر آ باد ، صحبت پور دیگر اضلاع میں ان کی اپنی پہچان ہے ۔میونسپل کمیٹی میں ترقیاتی اور خوشحالی لانے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں ۔ ڈیرہ اللہ یار میونسپل کمیٹی کا چیئرمین سردار سخی شاہنواز خان عمرانی سے التماس ضرور کروں گا کہ شہر ڈیرہ اللہ یار کے حالات سے بخوبی واقف ہیں شہر میں سیوریج ، پکی سڑکیں اور اسٹریٹ لائٹس جیسے اہم ترین ضروریات زندگی کا خاص خیال رکھیں ۔تاکہ بلدیاتی حکومت جعفرآباد ڈیرہ اللہ یار میں مثبت ثابت ہو ورنہ یہ شہر کھنڈر ہی قائم رہے گا۔