بڑی سچائی

Pakistan

Pakistan

یہ کتنی بڑی سچائی ہے۔۔۔ اوراس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں کسی جمہوری حکمران نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے پھر سوچنا کیسا؟ وطن ِ عزیز میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے اور کیسا ہے؟ ایک سال پہلے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کے بعد امیدو ار اور ان کے حواری، ووٹر سپورٹر ایسے ٹھنڈے ہو گئے ہیں جیسے کھانا ۔۔بارات لیٹ ہوجانے باعث دیگوں یا پراتوں میں پڑا پڑا ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔۔بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس کاغذ، پریس والوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار”سرگرم ِ عمل ہوگئے تھے۔

جو لوگ کام کے نہ کاج کے
۔۔دشمن اناج کے تھے

وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے تھے امیدوار کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں ،دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوںمیں نوٹ بھی لے جاتے پھر اچانک اس ماحول کو کسی کی نظر لگ گئی جہاں الیکشن کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی وہاں الو بولنے لگے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے سے کئی دہاڑی لگانے والوں کے منہ لٹک گئے اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں بیشتر امیدواروںنے اپنے انتخابی دفاتر بندکر دئیے ہیں۔

در اصل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شروع دن سے ہی مشکوک تھا اس میں حکومتی بے حسی کا زیادہ دخل کہا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت،بیوروکریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرناہی نہیں چاہتے بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جاتا جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا۔

جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کردیا ۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے۔

Local Government

Local Government

جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی اس وقت کئی مسلم اور مغربی ممالک میں ضلعی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھر پور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کرکے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کر وانے کے اعلان سے عوام کوعملاًبیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ،حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثرنہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہوگئی ہے جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر اس نے گذشتہ پانچ سال بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی جوسمجھ سے بالاتر ہے۔

بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہے اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کرکے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن ہے ۔۔۔ حالانکہ خامیاں دور کرکے ضلعی حکومتوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروںکی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے۔

ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو ۔۔۔جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی ، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانے کیلئے خودبخودکام کرتا رہے۔ آخرمیںآپ سے ایک سوال ہے جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے؟
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی