تحریر: امجد ملک بنیادی جمہوریت کے نظام” کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو بہت خوش آئیند، بہت سودمند نظام لگتا ہے جو مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کا خوش کن پہلو لئے، اختیارات و وسائل نچلی سطح پر، عام آدمی کے ہاتھ میں آنے کی نوید سناتا ہے۔دیہات کی سطح پر یہ جرگہ اور پنچایت کی طرز کا پلیٹ فارم بھی بن جاتا ہے۔گلی ،محلے ،گاؤں کی سطح پر بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی عام آدمی کے لئے انتہائی آسانی کا سبب بنتی ہے. نمائندوں کی دستیابی، یونین کونسلز کا قریب ترین ہونا، قومی و صوبائی نمائندوں کی مصروفیت بروقت میسر نہ ہونا ہر شخص کا ان سے مشکل رابطہ جیسے مسائل کو بلدیاتی نظام خوبصورتی سے سنبھال سکتا ہے۔
بلدیاتی الیکشن قومی و صوبائی الیکشن کے لئے عوامی شعور و تربیت کی نرسری کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ عام آدمی کا لوکل نمائندوں سے براہ راست رابطہ انکے ووٹ کے حق کو استعمال کرنا اور زیادہ سے زیادہ ٹرن آوٹ کا سبب بھی بنتا ہے جسکا مطلب لوگوں کا ملکی معاملات میں , انتخاب کے عمل میں , غلط صحیح کی پہچان میں مثبت کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہونا کیا چاییے ،ہوتا کیا ہے ؟چبلدیاتی نظام کو حکمران طبقے نے ہمیشہ اپنی ضرورت , مجبوری یا مخصوص مقاصد کے لئے لاگو یا قبول کیا. سیاست ہمارے ملک میں یوں بھی مخصوص مقاصد , بطور آمدن , اثر و رسوخ , یا ناجائز دولت کو تحفظ دینے جیسے کاموں کے لئے کرنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے. ہزاروں قصے زبان زد عام ہیں , ہزاروں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں معمولی کلرک , میٹر ریڈر , بس کنڈکٹر , دیکھتے دیکھتے صرف امیر نہیں بلکہ انتہائی امیر ہو گیا.
حکومتوں اور سیاستدانوں دانوں کے نزدیک ” ترقی کا پہیہ ” بھی نوٹوں اور کمیشن والے کاموں سے ہی گھومتا ہے. اوپر سے نیچے تک ” ترقی ” کی ہر کوشش ” نقد بچت ” پر آ کر ٹک جاتی ہے ۔بدقسمتی سے ایسی لیڈر شپ کی شدید کمی ہے جو تعلیم و تربیت خاص طور پر ملک سے محبت , نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کے تناظر میں , اخلاص و ایمانداری والی ” سیاسی آگاہی ” پہ کام کرتی. ایسے پڑھے لکھے , مخلص , با صلاحیت , اور جذبہ حب الوطنی والے لوگ سیاست میں آتے جو نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کا سبب بنتے.
Democracy
جب دولت , اثر و رسوخ , بدمعاشی , کسی با اثر کی پشت پناہی , بلدیات کا انتخاب لڑنے کی شرط ٹھہرے تو پھر ہر خبر اور اخبار دردناک واقعات ہی لے کر آتی ہے. ملک میں ترقی , خوش حالی , غریب آدمی کے حالات بدلنے , انصاف اور امن کا بول بالا کرنے کے لئے مقامی قیادت کا چناؤ ہو رہا ہے. اور نفرتوں و عداوتوں کے شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔قتل ہو رہے ہیں , ٹانگیں توڑی جا رہی ہیں , گھر جلائے جا رہے ہیں , دھمکیاں , لالچ , پیشکشیں , دباؤ , نفرت آمیز تقریریں , گلی گلی , محلہ محلہ کشیدگی کے سے آثار , بینر , سٹکر , پوسٹرز پہ لڑائیاں , کچھ لوگ کہتے ہیں ” جناب برطانیہ میں بھی جمہوریت آتے آتے بہت فساد ہوئے تھے ” ۔کچھ کی ماہرانہ رائے ہمیشہ سے یہ ہے کہ ” ملک میں آمریت رہی , بار بار الیکشن سے سیاسی تربیت ہوتی رہے گی ” دونوں آرا بجا سہی , لیکن کیا ہماری نیتیں , ہمارا راستے کا تعین ٹھیک ہے ؟ سیاستدانوں کو جو ” جمہوریت کے پل ” میسر آئے , کیا انکی پرفارمنس اتنی اچھی رہی کہ ملک میں جمہوریت کا نام فخر و شکر سے لیا جائے ؟ فیصل آباد کا بلدیاتی دنگل , نفرتوں کی ایک فصل بو گیا.
حب الوطنی ” , محبت , امن اور باہمی ہم آہنگی سے جنم لیتی ہے. تعلیم و تربیت اور آگاہی کے بغیر ایک ہزار ایک بلدیاتی انتخاب کروا لیں. نفرتیں , عداوتیں , ہمیں تقسیم در تقسیم کرتی جائیں گی. کوئی دور رس نتائج , ملکی ترقی , مستقبل کے خواب ایسے بلدیاتی نظام سے پورے ہوتے نظر نہیں آتے جہاں انتخاب لڑنے اور لڑانے والے کو ملکی مفاد کا ادراک ہی نہ ہو. تعلیم تربیت , آگاہی کی ضرورت شدید ترین ہے. اگر ان سیاسی کوششوں کا رخ , ذاتی مفاد سے ملکی مفاد کی طرف موڑنا مقصود ہو.