لاہور (جیوڈیسک) بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے بالخصوص لاہور میں بدترین شکست کے بعد تحریک انصاف کو نمائشی جلسوں کی سیاست اور پرتعیش کمروں میں بیٹھ کر ’’نو رتنوں‘‘ کے تراشیدہ فیصلے کرنے کی روایت چھوڑ کر گلی محلوں میں داخل ہونا پڑے گا ورنہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف سے جیت کی گاڑی چھوٹ سکتی ہے۔
عمران خان کو نمائشی اور آسائشی دونوں طرز کے رہنماؤں کی شارٹ لسٹنگ کرنا ہو گی، بلدیاتی انتخابات کے گھوڑے کو لگام ڈالنے کی ذمہ داری چوہدری سرور کے سپرد کی تھی لیکن ان سے گھوڑا ہی سنبھالا نہیں گیا۔ تحریک انصاف 2011ء کی’’ پیدائش نو‘‘ کے بعد سے لاہور اور پنجاب میں قدم جمانے کے لئے جستجو کرتی رہی ہے مگر منصوبہ سازی کے فقدان اور عام کارکنوں سے کنارہ کشی نے تحریک انصاف کو کامیابی کے قریب نہیں آنے دیا۔
2013 کے انتخابات میں عمران خان نے عام کارکنوں کو ٹکٹ دینے کے بلندوبانگ دعوے کئے مگر وقت آنے پر کچھ ٹکٹ دھڑے بندیوں کی بنیاد پر تقسیم ہوئے اور باقی ’’برائے فروخت‘‘ ڈکلیئر کر کے چند رہنماؤں نے کروڑوں روپے کما لئے۔
بلدیاتی الیکشن میں بدترین شکست نے لاہور کے آرگنائزر شفقت محمود کی سیاسی اور تنظیمی ساکھ کو بھی زیروزبر کر دیا ہے۔ عمران خان کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ انہیں اپنی نجی زندگی کی تنظیم نو تو کرنا ہی ہے لیکن اب انہیں تحریک انصاف کی بھی تنظیم نو کرنا ہو گی۔