تحریر: شاہ فیصل نعیم رسول اللہ ۖ کی خدمت میں دو اشخاص آئے اور کہاکہ اللہ نے آپ کو جن علاقوں پر حاکم بنایا ہے اُن میں سے کسی علاقے پر ہمیں بھی گورنر بنادیں۔ اس پر رسولۖ نے اُن کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ” اللہ کی قسم ! ہم اُس آدمی کو کوئی عہدہ حوالے نہیں کرتے جو اُس کا سوال کرے یا اُس کی لالچ رکھے”۔(بخاری)۔
مرکزی وصوبائی ، ضمنی انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات کا دور زورو شور سے جاری ہے پھر گلی، محلوں، چوراہوں، بازاروںاور شہروں میں وہی گھما گھمی، جلسے ،جلوس، بے معنی تقریریں، جھوٹے وعدے، کارنرمیٹینگز، لڑائی جھگڑے، فساداور انارکی… اس قوم کے تاریک مستقبل کو اور تاریک کرنے کے لیے ہر طرح سے تیار جاہل، اُجڈ، نااہل، اخلاقی قدروں سے عاری، دولت کے پجاری، دین سے ناآشنا اور اقتدار کی ہوس سینوں میں لیئے ہوئے ناکارہ امیدواران…جن کی اپنی زندگی کسی اور کے فیصلوں کے سبب گزر رہی ہے وہ اب اس قوم کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ہر بار کی طرح اس بار پھر یہ قوم چائے کی پیالی، بریانی کی پلیٹ، میٹھے پانی کے گلاس، گلاب جامن کے ایک دانے، ایک ڈبی سگریٹ اور دس روپے سے لیکر نالی پکی کروانے،گلی میں کنکریٹ ڈلوانے، بیٹے کوسفارشی نوکری دلوانے اور اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کروانے کے عوض اپنا ضمیر بیچ دے گی۔
Future
اپنا اور قوم کا مستقبل کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں دیدے گی جو انتخابات کے بعد قوم کا حال تک نہیں پوچھیں گے۔اور پھر یہی بیوقوف قوم اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے شکوہ کرتے ہوئے احتجاج کرے گی، جلوس نکالے گی، اُنہیں بُرا بھلا کہتے ہوئے اپنی ہی املاک کو نقصاں پہنچائے گی جس کا خمیازہ پھر اس قوم کا خود ہی مہنگائی کی صور ت میں بھگتنا پڑے گا۔ کوئی ان احتجاج اور ہڑتالیں کرنے والوں سے پوچھے میاں آپ تو اپنا ضمیر بیچ چکے ہو جس کا بدلا بھی آپ کو مل چکا تو پھر اب یہ شورو غل کیسا ؟ کوئی اُن کو بتائے کے اب یہ حق آپ کے پاس نہیں رہا۔ اُن کو کہے کوئی کہ جائو اب اپنے گھرو ں میں اور سفارش کے بدلے ملنے والی نوکری سے آنے والی حرام کی کمائی کے مزے اُڑائو تمہارا اب یہاں کیا کام ؟۔
ویسے تو ہر الیکشن لڑنے والے کا مقصدِ اولین اقتدار کے ذریعے پیسا کمانا ہوتا ہے…خدمت کا نعرہ تو محض ایک دکھاوا ہے ووٹوں کے حصول کا ۔ مگر بلدیاتی انتخابات میں جو امیدواران اپنی قسمت آزمانے کے لیے کمر بستہ ہیںاُن میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب کے سب ہمارے معاشرے کا ناکارہ طبقہ ہیں جو کسی کام کاج کے نہیں۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی گلی ایسی نہیں جس میں سے دو سے تین لوگ الیکشن نا لڑ رہے ہوں او ر جس گھر میںدس سے پندرہ لوگ رہتے ہیں اُنہوںنے تو اپنے ہی گھرکے کسی فر د کو الیکشن کے لیے راضی کر لیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں اس قوم اور معاشرے کا انتخاب بلدیاتی انتخابا ت میں کیا رنگ لاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لیڈروں کی اس قدر بہتا ت ہو گئی ہے کہ اب اُن میں سے لیڈر تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہی ہمارے معاشرے کا روگ ہے یہی ہماری تباہی کا باعث ہے۔اس ملک کا ہر حکمران اقتدار کی ہوس لے کر مسندِ اقتدار پر متمکن ہوتا ہے اُس کے پیشِ نظرملک و قوم کی خدمت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔
Pakistani
اگر آپ پاکستانی ہیں اور آپ کو کوئی کام بھی کرنانہیں آتا، آپ سارا دن چائے والی دکانوں پہ بیٹھنے، گپیں ہانکنے، تاش کھیلنے، فلمیں دیکھنے اور گلیوں چوراہوں میں کھڑے لڑکیاں تاڑنے میں گزار دیتے ہیں ،بے ایمانی، رشوت ستانی اور جھوٹ بولنے میں آپ کا ثانی کوئی نہیں، تعلیم و تہذیب سے آپ کادوردور تک کوئی تعلق نہیں، چوری، ڈاکے اور عصمت ریزی کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانا اور دال پینا آپ کے نزد یک معمولی باتیں ہیں، آپ کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا مگر آپ لوگوں کو سبز باغ دیکھانے اور انہیں بیوقوف بنانے میں ماہر ہیں، آپ کو گھر والے منہ تک نہیں لگاتے اور اگر اس سے بھی بد تر صورتِ حال ہے تو پھر بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں…!
میرے پاس آپ کے لیے ایک مشورہ ہے۔”آپ سیاستدان بن جائیں” الیکشن لڑیں ، یقین مانیںاس سے اچھا بزنس اور جائے پناہ کم ازکم پاکستان میں اور کوئی نہیں۔پریشان نہیں ہونا پچھلے ٦٨سالوں سے آپ جیسے لوگ ہی اس مملکتِ خداداد کے ایوانوں میں براجمان ہیں ، آپ جیسے لوگ ہی اس قوم کے تاریک مستقبل کے فیصلے سنا رہے ہیں…!