تحریر : عمران چنگیزی سپریم کورٹ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کیلئے مزید مہلت سے انکار اور شیڈول کے مطابق ستمبر2015 ءمیں انتخابات کرانے کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ و پنجاب سمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اجراءکے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چیئرمین سینٹ کیلئے اپنا نمائندہ نامزد کرنے کی بجائے اپوزیشن کے نامزد چیئرمین سینٹ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کی حمایت کا فیصلہ اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات اور اس ملاقات میںق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت و میاں نوازشریف کے درمیان رازو نیازکے فوری بعد غازی عبدالرشید قتل کیس میں پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری کا اجرا¿ اوروزیراعظم میاں نوازشریف کی کراچی آمد کے موقع پر سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کاچھاپہ مشرف کو لٹکانے کی ن لیگ کی خواہش اور متحدہ کو بلدیاتی انتخابات سے باہر رکھنے کی پیپلز پارٹی کی کوشش کی تکمیل کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان خاموش مفاہمت کا پتا دے رہی ہے۔
رینجرز کے مطابق خطرناک ملزمان کی موجودگی کی اطلاعات پروفاقی و صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیکر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیروپر چھاپہ ماراگیا ہے اور چھاپے میں تلاشی کے دوران نائن زیرو سے نہ صرف ولی بابر قتل کیس میں ملوث ملزم کے علاوہ دیگر کئی اور مطلوب و سزا یافتہ ملزمان بھی پکڑے گئے ہیں جبکہ نیٹو کنٹینرز سے چوری شدہ اسلحہ سمیت بڑی تعداد میں ممنوعہ و غیر قانونی اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے ۔دوسری جانب ایم کیو ایم کی جانب سے رینجرز کے اقدام کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے آرمی چیف سے نوٹس لینے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے شفاف تحقیقات کے مطالبہ کے ساتھ ملک بھر میں پر امن یوم سوگ کا اعلان بھی کیا گیا جس کے بعد کراچی ‘ حیدرآباد ‘ سکھر اور میر پور خاص سمیت سندھ بھر میں سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہوگئی اور کاروباری و تجارتی مراکز کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی بند کردیئے گئے گوکہ گورنر سندھ نے واقعہ کے حوالے سے ڈی جی رینجرز اور وفاقی وزیرداخلہ سے رابطہ کیا ہے لیکن قرائن بتارہے ہیں کہ صورتحال میں مثبت تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اور اگر متحدہ کے تحفظات کا فوری خاتمہ نہیں کیا گیا تو اس کا یوم سوگ ایک دن سے زائد کی طوالت اختیار کرسکتا ہے۔موجودہ ملکی حالات میں جب مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال رکھی ہیں ‘بیروزگاری کے باعث لوگ جرائم کی راہ اپنانے پر مجبور ہیںاور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح سماجی مسائل میں اضافے کے ساتھ وطن عزیز کو خانہ جنگی کی جانب بھی دھکیل رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کا یہ طرز سیاست کسی بھی طور قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے قومی انتخابات میںدھاندلی کے الزامات کے باوجود انتخابی نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کو ‘ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کو ‘ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی جبکہ شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہے اور اب سینیٹ انتخابات کے بعد سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے 27 ‘ مسلم لیگ (ن) کے26‘متحدہ قومی موومنٹ کے8‘ عوامی نیشنل پارٹی کے7‘تحریک انصاف کے 6اراکین کی موجودگی اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس حکومت ضرور ہے مگر سینیٹ میں سب سے بڑی اکثریتی جماعت ہونے اور سینٹ میں چیئرمین شپ کے حصول کے بعد اب پیپلزپارٹی کی رضا و منشاءکے بغیر قوانین سازی اور بلوں کی منظوری مسلم لیگ (ن) کیلئے ممکن نہیں رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کا طرز سیاست اور بلوچستان کے قوم پرستوں و پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان بچھی سیاسی شطرنج پر ایم کیو ایم ہی وہ مہرہ ہے جو حریف سیاسی جماعت کو شہ مات دینے کیلئے کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
MQM
ایم کیو ایم سے مفاہمت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی ناگزیرسیاسی ضرورت سہی لیکن مسلم لیگ (ن) کیلئے مشرف عناد اور پیپلز پارٹی کیلئے کراچی ‘ حیدرآباد ‘ میرپور خاص اور سکھر کی میئر شپ کا حصول شاید اس سیاسی ضرورت سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسی لئے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اجرا¿ کے ساتھ ہی مشرف اور متحدہ دونوں ہی کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ عقابوں کے درمیان چوزے کی حیثیت رکھنے والی پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ منظم و مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اگر پرویز مشرف کو عوامی تقریبات میں شرکت اور اجتماعات سے خطاب کے مواقع مہیا ہوگئے تو بلدیاتی انتخابات میں مشرف کی جماعت متحدہ کی حمایت سے اندرون سندھ ‘ پنجاب ‘ گلگت بلتستان ‘ خیبر پختونخواہ سمیت بلوچستان کے کچھ علاقوں سے بھی متوقع انتخابی نتائج کو اپ سیٹ کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوگیا اور بلدیاتی انتخابات میں مشرف کی جماعت خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میںکامیاب ہوگئی تو پھر آئندہ قومی انتخابات میں حکمرانی کا اعزاز پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ دونوں میں سے کسی بھی نہیں مل پائے گا جس کے بعد سندھ میں یقینا حکومت متحدہ قومی موومنٹ بنائے گی جبکہ خیبر پختونخواہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پاس ہوگا ‘ بلوچستان میں قوم پرستوں کی مدد سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت تو بن سکتی ہے مگر پنجاب میں تحریک انصاف ‘ ق لیگ اور مشرف لیگ کی حکمرانی ہوگی جس کے بعد مرکزی حکومت کے مستقبل کے بارے میں رائے زنی یا تجزیہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مستقبل کے خطرناک تجزیئے کو باطل ثابت کرنے کیلئے ”ہاتھ ملانے“ اور” مسکرانے“ والے دونوں یکجا ہوگئے ہیں اور ان اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے جن کے تحت متحدہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوجائے یا پھر ماضی کی طرح ایکبار پھر بدنامی کے اس مقام تک پہنچادی جائے جہاں اس پر غداری کے الزامات لگانا پھر سے ممکن ہو اور اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی پرواز کو محدود کیا جاسکے رہی بات پرویز مشرف کی توعوام میں مشرف کی مقبولیت و حمایت اور مشرف دور میں ہونے والی قومی ترقی و معاشی استحکام سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر انتخابی کامیابی کیلئے عوام کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لانے اور اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کیلئے مضبوط و منظم سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے پرویز مشرف اب تک محروم ہیں انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد تو ضرور رکھ دی ہے مگر ان کی سیاسی جماعت اب تک نظریاتی کارکنا ن و عہدیداران سے محروم ہے اسلئے مشرف کو انتخابات میں کامیابی کیلئے اس” بیساکھی “کی ضرورت ہے جس پر سیاسی بازیگروں نے قبل از وقت ہی وار کرنا شروع کردیئے ہیں۔
دوسری جانب قومی صورتحال یہ ہے آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعدفوج کی قربانیوں ‘ محنت ‘ کوشش‘ جانفشانی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے باعث دہشتگردی میں کمی ضرور آئی ہے مگرسیکورٹی ادارے اب بھی عوام کو مکمل تحفظ فراہم کرنے اور دہشتگردوں کو تخریبی کاروائیوں سے روکنے میںناکام ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت سمیت کراچی ‘ لاہور ‘پشاور کوئٹہ اوردیگر تمام بڑے شہر مافیاز کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور ٹینکر مافیا کروڑوں اربوں کمارہی ہے ‘بھتہ مافیا آزاد ہے ‘ تاجروں ‘صنعتکاروں اور کاروباری افراد کو تواتر سے بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں ‘ دکانوں ‘ دفاتر اور فیکٹریوں پر گرنیڈ حملے ‘ تاجروں و صنعتکاروں کے اغوا¿ و تاوان کی طلبی و وصولی ‘ سیاسی ‘ سماجی‘ طبی ‘ ادبی ‘ تعلیمی شخصیات کی ٹارگیٹ کلنگ جاری وساری ہے ‘سی این جی اسٹیشنوں کی ہفتے میں تین دن بندش ‘ گیس لوڈ شیڈنگ کے باعث گھروں کے ٹھنڈے چولہے جبکہ ہوٹلوں کے دہکتے تندور ‘ موسم سرما کی آمد سے قبل بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا آغاز اور اس کے دورانیہ میں بڑھتا ہوا اضافہ ‘ مہنگائی ‘ غربت اور بیروزگاری کا نہ تھمنے والا طوفان اعلیٰ حکومتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ تمام اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن و رشوت ستانی ‘بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم ‘ اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت زار‘ ٹریفک کا تباہ حال نظام اور روز کا ٹریفک جام ‘ٹرانسپورٹرز کی من مانیاں ‘ چالان کے نام پر ٹریفک پولیس کی بھتہ مہم ‘ سڑکوں کے اطراف غیر قانونی کار پارکنگ کا قیام اور اسے کامیاب بنانے کیلئے پولیس کی جانب سے نو پارکنگ کے نام پر ہر جگہ سے بلا سبب گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اٹھالیئے جانے کے بعد شہریوں کی پریشانی ‘ چالان وصولی سے پارکنگ فیس اور لفٹنگ چارجز تک کی وصولی کو نجی شعبے کے حوالے کرکے عوام کی جیبوں پرحکومت کی قانونی ڈکیتیاں‘شہریوں کے ساتھ پولیس کا ناروا سلوک و زیادتیاں‘ پولیس اہلکاروں کی جائیدادوں و بنک بیلنس میں ہونے والا اضافہ اورسیوریج کے تباہ حال نظام کے باعث سڑکوں و گلیوں میں ابلتی ہوئی گٹریں اور ان سے اٹھتا ہوا تعفن جبکہ ہفتوں مہینوں سڑکوں پر کھڑے رہنے والے سیوریج کے پانی کے باعث تباہ ہوتی ہوئی سڑکیں اس بات کو ثابت کررہی ہیںانتظامیہ اور حکومت کے درمیان وہ روایتی خلیج حائل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اداروں پر حکومت کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے اور جسے آمریت کو دعوت دینے والی علامتوں میں سب سے زیادہ واضح علامت کہا جاتا ہے۔
Democracy
ان حالات میں انتخابی نتائج کو اپنی مرضی و منشاءکی ڈگر پر ڈالنے کیلئے اپنایا جانے والا نیا سیاسی طرز عمل اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ موسم کی انگڑائیاں جس طرح سے خنکی کا جالہ چھٹنے اور گرمی کا ہالہ تن جانے کا پتا دے رہی ہیں ویسے ہی سیاسی موسم کا بھی درجہ حرات بڑھنے والا ہے اور جوں جوں موسم کا مزاج سخت ہوگا سیاسی کشیدگی اور گرما گرمی میں بھی تیزی آئے گی اور چونکہ موسم سرما کا گرم مزاج ماہ اگست و ستمبر میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے اسلئے سیاسی موسم کی شدت و حدت میں بھی ان اوقات میں اضافے کی توقع ہے جس کے بعد موسم اور سیاست دونوں میں تبدیلی متوقع ہے مگر موسم کی طرح سیاست کی تبدیلی نہ تو قدرتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی آئینی لہٰذا جو بھی تبدیلی ہوگی اس کا الزام ہمیشہ کی طرح اس بار بھی افواج یا سربراہ عساکر کو دینا یقینا زیادتی ہی ہوگی کیونکہ افواج پاکستان ہر طرح سے جمہوریت کا حترام اور ملک و قوم کی خدمت و حفاظت کررہی ہیںاور سابق سربراہ عساکر کی طرح موجودہ آرمی چیف کا جمہوریت پسند کردار بھی کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے اس کے باوجود بھی اگر ملک میں آمریت آئی تو اس کے ذمہ دار سیاستدان ‘ حکمران اور وہ مفاپرستانہ وروایتی سیاسی رویئے ہوں گے جن میں قومی مفادات پر سیاسی مفادات کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور تاحال دی جا رہی ہے۔