جیسے ہی سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کی استدعاپہ بلدیاتی انتخابات کی نئی تاریخ سامنے آئی تو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے ممکنہ امیدواروں میں خوشی کی لہرجبکہ گرم جوشی سے انتخابی مہم چلانے والوں میں مایوسی پھیل گئی نئی تاریخ آنے پہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے اور میدان میں اترنے والے امیدواروں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ متوقع ہے بلکہ الیکشن مہم بھر پور انداز سے چلانے اور اپنا پیغام ووٹرز تک پہنچانے میں آسانی رہے گی اور مناسب وقت مل سکے گا۔ امیدواروں کو جانچنے اور سوچ و بچار کر کے ووٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔
عوام الناس میں سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کی استدعاپر الیکشن کی تاریخ جنوری تک بڑھانے کی اپیل کو تسلیم کرنے پر اظہار مسرت پایا گیا۔اس مجوزہ تاریخ میں اضافے پر امیدواروں اور ووٹرز نے یکساں اظہار مسرت کیا ہے امیدواروں کو خوشی ہے کہ اب انہیں اپنے حلقہ کے ووٹرزتک اپنا پیغام پہنچانے میں اچھا خاصاوقت مل جائے گا کیونکہ پہلے افراتفری میں الیکشن ہونے تھے اور اب اطمینان سے لوگ اپنی مہم چلائیں گے اور بھر پور محنت کر کے اپنا پیغام ورکرز تک پہچائیں گے۔
ووٹرز کا اظہار مسرت اس بات پر ہے کہ وہ اب مناسب انداز سے اور خوب دیکھ بھال کر امیدواروں کو جانچ سکیں گے اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنے میں انہیں مدد ملے گی سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے نئے شیڈول کا اعلان تو کردیا لیکن لگتا ہے نئے بلدیاتی الیکشن شیڈول پہ بھی انتخابات مشکوک دکھائی دینے لگے ہیں ادھر خیبر پختونخوا حکومت نے مارچ سے قبل بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے سے معذرت ظاہر کر دی ہے۔ سرکاری ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ چترال اور دیر سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر بالائی اضلاع میں مارچ تک برف باری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
Election Commission
صوبہ میں نئی حلقہ بندیوں کے لئے بھی دو ماہ کا عرصہ چاہیے۔ اس صورت حال میں خیبر پختونخوا حکومت کے لئے مارچ سے قبل بلدیاتی انتخابات کرانا مشکل ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مارچ کے اواخر یا اپریل کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں خیبر پختونخوا حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رابطے میں ہے۔خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بھی مشکلات میں مبتلا نظر آ رہی ہے مقامی سطح پہ ایک سیاسی پارٹی حکومتی اتحاد سے الگ ہو چکی ہے کچھ وزراء کو کرپشن کے الزامات لگا کر فارغ کر دیا گیا ہے شیرپائو گروپ بھی حکومت سے باہر آچکا ہے حکومت سے علیحدگی کے بعد انہوں نے حکومت پہ نہ صرف سنگین الزامات لگائے ہیں بلکہ ہر ہفتے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نیا اسکنڈل سامنے لانے کا بھی اعلان کر ڈالا ہے۔
آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کی حکومت مزید مشکلات میں پھنس سکتی ہے مولانا فضل الرحمن بھی متحرک ہو چکے ہیں ان کی تو خواہش ہے کہ جلد سے جلد تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے یہ بات تو طے ہے کہ جب تک مرکز سے شطرنج کے مہرے نہ ہلائے گئے تب تک خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا نیٹو سپلائی روکنے کی تاریخ بھی سر پہ آ پہنچی ہے نیٹو سپلائی روکنے کے پلان کو حتمی شکل دیدی گئی۔
تحریک انصاف نے 20 نومبر کو نیٹو سپلائی روکنے کے پلان کو حتمی شکل دیدی ہے۔ نیٹو سپلائی روکنے کیلئے تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ میڈیا کے مطابق تحریک انصاف ڈرون حملوں کیخلاف مظاہرے بھی کرے گی۔ صوبائی پولیس اور ایف سی نیٹو سپلائی روکنے کے عمل میں معاونت نہیں کرے گی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کو نیٹو سپلائی روکنے کے عمل میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ نیٹو سپلائی پشاور کے علاوہ کراچی میں بھی روکی جائے گی۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 20 نومبر کو پشاور کا دورہ کرینگیبہرکیف سب اچھا نہیں ہے۔
کیا معلوم کہ جس طرح خیبر پختون خوا حکومت نے سپریم کورٹ کے نئے الیکشن شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانے کی معذرت ظاہر کی ہے بالکل اسی طرح دیگر صوبے بھی کوئی نہ کوئی مجبوری ظاہر کر سکتے ہیں بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کم از کم جماعتی بنیادوں پہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کر اسکے کیونکہ جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت بر سراقتدار آئی ہے عوام کو وہ ریلیف نہیں دے پائی جس کا انہوں نے عوام سے عام انتخابات کے موقع پہ الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اب تو لوگ یہ کہنے پہ مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ شیر تو ہمیں ہی کھانے لگا ہے بہرکیف بلدیاتی انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔