تحریر : عبدالرزاق چودھری پاک فوج، رینجرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی مشترکہ کوششوں سے پاکستان کی فضا بہت حد تک دہشت گردی کے چنگل سے آزاد ہو چکی ہے۔ اگرچہ کلی طور پر اس عذاب سے نجات کی نوید تو نہیں سنائی جا سکتی لیکن عمومی طور پر حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کی بے مثال کامیابی کی بدولت اور پاک فوج کی بے پناہ قربانیوں کے مرہون منت دہشت گردی میں نمایاں کمی رونما ہو چکی ہے جس پر پاک فوج حکومت پاکستان سمیت خراج تحسین کی مستحق ہے۔
ملکی حالات کے سازگار ہونے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ نہایت پر امن ماحول میں اپنے اختتام کو پہنچا اور قوم کو ملک بھر سے دہشت گردی کی کسی واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی جو یقینی طور پر حوصلہ افزا بات ہے اب قوم بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ طے کرنے کو بیتاب ہے اور امید ہے یہ مرحلہ بھی امن کے سائے تلے اختتام پذیر ہو گا۔
اگر بات کریں صوبہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے انعقادکے دوسرے مرحلہ کی تو سیاسی منظر نامہ پر سیاسی جماعتیں اپنی تیاری مکمل کر چکی ہیں۔مسلم لیگ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس مرحلہ میں ارکان اسمبلی اور وزرا کے عزیز و اقارب کو نوازنے کی بجائے مخلص اور کڑے وقت میں ساتھ نبھانے والے دیرینہ وفادار کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرے گی جو خوش آئند بات ہے اگرچہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مسلم لیگ نون کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ثابت ہوا ہے۔
Municipal Elections
سیاسی بصیرت سے ہم آہنگ دوستوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں سجنے والا یہ بلدیاتی معرکہ نتائج کے اعتبار سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے مرحلہ کا ایکشن ری پلے ہو گا کیونکہ پنجاب میں شہباز شریف کے طرز حکومت کو عوامی پزیرائی حاصل ہے جس سے پارٹی کو سیاسی طور پر کافی تقویت ملی ہے اور گلی محلے کی سیاست میں نون لیگ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے اگرچہ اس خیال کے بر عکس بھی کچھ دانشور اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کی نگاہ میں موجودہ حکومت کے منصوبے نمائشی ہیں اور نتائج کے اعتبار سے ناقص ہیں۔
ان کی رائے میں سڑکوں،پلوں کا جال بچھانے اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں سے قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ قوم کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے وسیع النظر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے یہ کاغذی منصوبے عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہیں۔ اس مکتبہ فکر کے افراد کے خیالات اپنی جگہ معتبر ہوں گے لیکن پنجاب کی عمومی سیاسی فضا تو یہی پیش گوئی کر رہی ہے کہ ن لیگ اس مرتبہ بھی انتخابی میدان میں سرخرو ہو گی اور اس کے امیدواروں کی ایک بہت بڑی تعداد کامیاب ہو گی ۔ صوبہ پنجاب میں گزشتہ بلدیاتی الیکشن کی طرح نون لیگ کے مد مقابل مضبوط حریف کے طور پر تحریک انصاف ہی ہو گی جس کی کارکردگی کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کہیں کہیں تحریک انصاف کے امیدوار بھی حیران کن نتائج دے سکتے ہیں ۔در حقیقت تحریک انصاف تنظیمی طور پر کمزور ہے اور ان دنوں یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ کی نجی الجھنوں کے باعث کارکنوں کا مورال بھی پست ہے اور یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ پچھلے الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی تحریک انصاف اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اندازے کس حد تک درست قرار پاتے ہیں کیونکہ ہم اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر جمع ہے جو متحرک،فعال اور پارٹی سے وفادار بھی ہے۔ممکن ہے ان کی غیر معمولی کوشش رنگ لے آئے اور تحریک انصاف پہلے سے بہتر نتائج دینے میں کامیاب ہو جائے لیکن دوسری جانب یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ گزشتہ بلدیاتی الیکشن کے مرحلہ میں حمزہ شہباز بھی بڑے متحرک دکھائی دیئے انہوں نے جس انداز سے لوکل سیاسی میدان میں سیاسی داو پیچ کھیلے اس سے ان کی سیاسی بصیرت اور مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔بالخصوص ڈسٹرکٹ لاہور کے متوقع مئیر خواجہ احمد حسان کا بلا مقابلہ کامیاب ہو جانا حیران کن اور چونکا دینے والا سیاسی وار تھا شنید ہے کہ اس کامیابی کے پس منظر میں حمزہ شہباز کی سیاسی حکمت عملی کارفرما تھی۔
PTI
پنجاب سے ہٹ کر اگر بات کی جائے سندھ میں منعقدہ دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات کی تو برملا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس مرحلہ کے انتخابات کا انعقاد سندھ حکومت کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلہ میں ضلع خیر پور سے خیر کی خبر نہیں آئی تھی اور متحارب گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ کی فضاابھی تک سوگوار ہے اور پیپلز پارٹی بھی جیت کا بھرپور جشن منانے سے قاصر رہی ۔دوسرے مرحلہ میں ہونے والے الیکشن میں صوبہ سندھ میں بظاہر پیپلز پارٹی کے سیاسی گھوڑے ہی سر پٹ دوڑتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی کسی جگہ پیر پگاڑہ کی جماعت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مضبوط حریف کے طور پر ابھر سکتی ہے اور ساتھ ساتھ ضلع بدین میں ذولفقار مرزا بھی پیپلز پارٹی کو مشکل صورتحال سے دوچار کر سکتے ہیں۔
یاد رہے اکتیس اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں سکھر اور لاڑکانہ کے آٹھ اضلاع میں پیپلز پارٹی نمایاں برتری کے ساتھ سر فہرست تھی اور اب انیس نومبر کو حیدرآباد ،میر پور خاص، بنبھور اور بے نظیرآباد ڈویژنز کے بارہ اضلاع میں انتخابی دنگل سجنے کو ہے ۔ میر پور خاص، سانگھڑ اور عمر کوٹ میں پیر صاحب پگاڑہ کی جماعت کی مقبولیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور گمان کیا جا رہاہے کہ مسلم لیگ فنکشنل ان جگہوں پر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ دوسری جانب ضلع بدین میں ذولفقار مرزا کے ساتھی پیپلز پارٹی کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں جس سے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں تشویش کی لہر دور گئی ہے اور شنید ہے کہ یہاں تصادم کا خطرہ بھی موجود ہے انیس نومبر کی آمد آمد ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی تیاریوں میں مگن ہیں اور جیت کے بلند و بانگ دعوے دہرائے جا رہے ہیں۔
البتہ حتمی فیصلہ تو الیکشن کے دن عوام ہی کریں گے کہ کون سی پارٹی موثر انداز میں ووٹرز پر اثر انداز ہوئی اور کس پارٹی کو عوام نے کامیابی کا اعزاز بخشا۔ ایک پہلوجس کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ سندھ حکومت کو خیر پور واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرنے چاہییں کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں بھی تصادم کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا یہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوے عمدہ حفاظتی اقدامات بروے کار لائے تاکہ انتخابات کے پر امن انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔